مرکز کی بی جے پی حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی اکثر و بیشتر اپنے ہی فیصلوں اور بیانات سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ حسب سہولت بیان بازی کرتے ہیں اور جب کبھی ان کو مناسب دکھائی دیتا ہے وہ اپنے ہی بیانات سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ بی جے پی اور یہی وہ نریندر مودی ہیں جنہوں نے ملک میں جی ایس ٹی کے نفاذ کی شدت کے ساتھ مخالفت کی تھی ۔ تاہم جب انہیں اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے ایک خصوصی پارلیمانی سشن منعقد کرتے ہوئے جی ایس ٹی کے نفاذ کا فیصلہ کیا اور اسے ایک تاریخی اقدام کے طور پر پیش کیا گیا ۔ یہی وہ نریندر مودی اور یہی وہ بی جے پی ہے جس نے ضمانت روزگار اسکیم کی مخالفت کی تھی اور اس کو ختم کرنے کی بات بھی کہی گئی تھی تاہم جب انہیں اقتدار حاصل ہوا تو اس اسکیم پر عمل آوری کو گذشتہ دس برسوں سے برقرار رکھا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اس اسکیم کا سہرا اپنے سر باندھنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ اسی طرح یہی وہ نریند مودی ہیں جنہوں نے بدعنوان اور رشوت خور سیاسی قائدین کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن جب یہ لوگ مودی کی پناہ میں آگئے تو انہیں عہدے اور اقتدار سونپ دیا ۔ ان میں ہیمنتا بسوا سرما ‘ سویندو ادھیکاری ‘ اجیت پوار اور کئی قائدین شامل ہیں۔ انتخابی مہم میں محض اقتدار کی خواہش میں تقریر کرتے ہوئے راجستھان کے بانسواڑہ میں نریندر مودی نے یہ واضح طور پر کہا تھا کہ کانگریس پارٹی اگر اقتدار میں آجائے تو وہ عوام کے اثاثہ جات ضبط کرتے ہوئے مسلمانوں میں بانٹ دے گی ۔ در اندازوں میں بانٹ دے گی اور جن کے زیادہ بچے ہیں ان کو بانٹ دے گی ۔ اب نریندر مودی اس بیان سے منحرف ہو رہے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے کبھی ہندو ۔ مسلم کا حوالہ نہیں دیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کانگریس کی سابقہ حکومتوں کا کہنا تھا کہ ملک کے اثاثہ جات پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے ۔ اب اگر کانگریس اقتدار میں آجائے تو خواتین کے منگل سوتر تک محفوظ نہیں رہیں گے اور یہ دولت در اندازوں میں بانٹ دی جائے گی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں میں تقسیم کردی جائے گی ۔
نریندر مودی کے دس سالہ اقتدار میں ایسے کئی مواقع آئے جب انہوں نے اپنے ہی دئے گئے بیانات سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا ۔ نریندر مودی نے 2014 میں اقتدار حاصل کرنے سے قبل ملک کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کئے جائیں گے ۔ اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے پکوڑے تلنے کو روزگار قرار دینے کی کوشش کی تھی ۔ اس طرح وہ اپنے وعدے سے منحرف ہوگئے تھے ۔ نریندر مودی نے بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا اس وعدہ کا آج تک کوئی تذکرہ نہیں کیا جاتا اور اس کو بھی فراموش کر بیٹھے ۔ مودی نے ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپئے جمع کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس کو انتخابی جملہ قرار دیدیا ۔ اس طرح اس وعدے سے بھی منحرف ہوگئے ۔ نریندر مودی نے کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ کیا تھا آج اس وعدہ کی بھی مودی کو کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ انہوں نے ہر بے گھر شہری کو گھر فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن یہ بھی پورا نہیں ہوا ۔ انہوں نے ہندوستان بھر میں 100 اسمارٹ شہر بنانے کی اسکیم کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ اسکیم بھی دھری کی دھری رہ گئی ۔ اس طرح اپنے اقتدار میں وہ مسلسل اپنے ہی وعدوں اور بیانات سے منحرف ہوتے رہے ہیں اور اب بھی وہ اسی حکمت عملی پر کام کرتے ہوئے اپنی ہی تقریر میں الفاظ کے الٹ پھیر کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یہ در اصل ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہی ہے ۔
وزیر اعظم سارے ملک کے نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پارٹی سے بالاتر ہوکر سوچنے کے پابند ہیں۔ سارے ملک اور ملک کے عوام کے تئیں ان کی ذمہ داری اور فرائض یکساں ہیں۔ وہ کسی مخصوص جماعت یا طبقہ یا مذہب کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ انہیں ملک کے ایک ایک شہری کا احساس کرنا چاہئے ہوتا ہے لیکن مودی انتخابات کے موسم میں اپنے اس فریضے کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور اپنے ہی بیان سے منحرف ہو رہے ہیں۔ سارا ملک جانتا ہے کہ انہوں نے کیا کچھ کہا ہے اور ان کا مقصد و اشارہ کیا تھا ۔ اب وہ اپنے بیان سے منحرف ہوتے ہیں تو عوام ان کی اس وضاحت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے ۔