وزیر اعظم کی انتخابی تقاریر

   

کام آسان ہو دشوار بنا لیتا ہوں
راہ چلتا ہوں تو دیوار بنا لیتا ہوں
دوسرے سیاسی قائدین کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بہار میں انتخابی مہم میں خود کو مصروف کرلیا ہے اور وہ بی جے پی کی انتخابی ریلیوں اور جلسوں وغیرہ سے خطاب کر رہے ہیں۔ بہار میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے وزیر اعظم لگاتار پرانے الزامات ہی دہرانے میں مصروف ہیں اور یہ دعوی کر رہے ہیں کہ آر جے ڈی زیر قیادت مہا گٹھ بندھن کو اقتدار ملتا ہے تو بہار میں جنگل راج واپس آجائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہار میں جنگل راج تو در اصل اب چل رہا ہے جب بی جے پی اور جے ڈی یو کے دو دہوں قدیم اقتدار میں دوران انتخابات ہی ایک امیدوار کے حامی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا اور یہ واردات ایسی ہے جس میں برسر اقتدار جے ڈی یو کے ہی ایک لیڈر اننت سنگھ ملوث بتائے جا رہے ہیں اور انہیں گرفتار بھی کرلیا گیا ہے اور عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے ۔ تاہم جہاں تک وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی تقاریر کا سوال ہے تو وہ ایک بار پھر سے غیرذمہ دارانہ ریمارکس کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں جو وزارت عظمی جیسے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہونے کی وجہ سے مناسب نہیں کہے جاسکتے ۔ وزیر اعظم نے آج ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بم دھماکہ ہوتا ہے تو کانگریس کے شاہی خاندان کی نیند اڑجاتی ہے اور وہ سو نہیں پاتے ہیں۔ اس طرح سے وزیراعظم نے کانگریس پر پاکستان کی ہمدرد ہونے کا الزام عائد کیا ہے ۔ ان کا دعوی تھا کہ کانگریس پارٹی ابھی تک آپریشن سندور کے صدمہ سے ابھر نہیں پائی ہے ۔ اس طرح کے ریمارکس ملک کے وزیر اعز کو ذیب نہیں دیتے ۔ وہ کسی ملک دشمن پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ ان کی سیاسی مخالفت پارٹی کے خلاف تقریر کر رہے تھے ۔ انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے تھا کہ کانگریس کوئی ملک دشمن پارٹی نہیں ہے بلکہ اس ملک پر کانگریس نے بھی طویل عرصہ حکومت کی ہے اور ملک کی آزادی میں اس پارٹی کا اہم رول رہا ہے ۔ وزارت عظمی پر فائز رہتے ہوئے اس طرح کے ریمارکس کرنا نریندر مودی کو ذیب نہیں دیتا اور انہیں اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ سارے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔
وزیر اعظم کا یہ بھی دعوی تھا کہ آر جے ڈی نے کانگریس کے سر پر کٹا ( بندوق ) رکھتے ہوئے تیجسوی یادو کو وزارت اعلی امیدوار کے طور پر قبول کرنے کیلئے مجبور کیا ہے ۔ یہ آر جے ڈی کا کلچر ہے ۔ اس طرح کے ریمارکس انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور سماج میں بے چینی پیدا کرنے والے کہے جاسکتے ہیں۔ اگر کانگریس واقعی پاکستان کی ہمدرد ہے تو پھر نریندر مودی کو جواب دینے کی ضرورت ہے کہ گیارہ سال سے ملک کے وزیر اعظم رہتے ہوئے انہوں نے کانگریس کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی ۔ ملک سے غداری کے مقدمے کیوں درج نہیں کئے گئے اور کانگریس قائدین کو جیل کیوں نہیں بھیجا گیا ۔ محض عوام کو رجھانے اور حقیقی مسائل سے ان کی توجہ ہٹانے کیلئے اس طرح کے ریمارکس کرنے سے وزیر اعظم کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح اگر آر جے ڈی کا گن کلچر ہے تو پھر یہ جواب بھی دیا جانا چاہئے کہ بہار میں بیس سال سے نتیش کمار کی حکومت کیا کر رہی ہے ۔ کیوں نہیں اس گن کلچر کو ختم کیا گیا ؟۔ وزیر اعظم کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اننت سنگھ کی قتل کے الزام میں گرفتاری کس کلچر کا حصہ ہے اور کیا یہ جنگل راج نہیں ہے ۔ بہار کی صورتحال تو یہ ہوگئی ہے کہ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے سیاسی کارکن تک محفوظ نہیں ہیں اور موجودہ رکن اسمبلی کے شوہر و خود سابق رکن اسمبلی اس قتل میں ملزم قرار دیتے ہوئے گرفتار کئے گئے ہیں۔ اس پر وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے دوسرے قائدین لگاتار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔
ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔ یہاں ہر چند ماہ بعد کسی نہ کسی ریاست میں انتخابات ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے ۔ انتخابی فائدہ حاصل کرنے کیلئے وزارت عظمی پر فائز رہتے ہوئے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ ریمارکس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے اور سماج میں ایک صحتمند انتخابی ماحول پیدا کرتے ہوئے عوامی مسائل پر مقابلہ کیا جانا چاہئے ۔ اپنی کارکردگی کو عوام میں پیش کرتے ہوئے تائید حاصل کی جانی چاہئے ۔ سماج کے تانے بانے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور انتخابی فائدہ کیلئے انہیں تار تار کرنے کی کسی کو بھی کوشش نہیں کرنی چاہئے چاہے وہ ملک کے وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہوں۔