تھا برق کی زد میں تو سدا میرا نشیمن
گرجائے اگر بجلی تو ڈرتے ہو بھلا کیوں
مرکزی کابینہ نے ملک میں ایک قوم ایک الیکشن تجویز کو منظوری دیدی ہے اور اس تجویز کو بل کی شکل دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی راہ بھی ہموار کردی گئی ہے ۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ کے جاریہ اجلاس کے دوران ہی مرکز کی نریندرمودی حکومت یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرسکتی ہے ۔ ویسے تو حکومت اس سلسلہ میں بہت پہلے سے تیاری کر رہی ہے اور اس کیلئے در پردہ سرگرمیاں بھی بہت تیزی سے چل رہی تھیں۔ تاہم گذشتہ دنوں ایک قوم ۔ ایک الیکشن کا جائزہ لینے تشکیل دی گئی کمیٹی کے سربراہ سابق صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے بھی اس تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے اسے ایک بہترین تجویز قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے ملک میں کروڑہا روپئے کی رقم بچائی جاسکتی ہے ۔ اس طرح یہ اشارے ملنے شروع ہوگئے تھے کہ ایک قوم ۔ ایک الیکشن کی تجویز پر حکومت تیزی کے ساتھ پیشرفت کرنا چاہتی ہے ۔ اب جبکہ کابینہ نے اس تجویز کو منظوری دیدی ہے توا س کو بل کی شکل دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور امیدوں کے مطابق اسے جاریہ سشن ہی میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ حالانکہ مودی حکومت اس معاملے پر بہت تیزی سے پیشرفت کر رہی ہے تاہم یہ تجویز ایسی نہیں ہے کہ اس پر راتوں رات کوئی فیصلہ کیا جاسکے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس پر شدید اعتراض ہے اور وہ پارلیمنٹ میں اس کی کھل کر مخالفت کریں گی ۔ مودی حکومت جس تیزی کے ساتھ اس مسئلہ ر پیشرفت کر رہی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے پس پردہ حکومت کے سیاسی محرکات ہیںاور وہ ملک میں وفاقی اور جمہوری ڈھانچہ کو نقصان پہونچانا چاہتی ہے ۔ اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ملک میں رائج جمہوری اور انتخابی نظام کو نظرا نداز کیا جائیگا ۔ ملک کا دستور بنانے والے ہمارے مجاہدین آزادی اور معماروں نے اس طرح کی کوئی تجویز دستور میں شامل نہیں کی تھی اور اب مودی حکومت اوربی جے پی اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے یہ ترمیم کرنا چاہتی ہے جو ملک میں وفاقی طرز حکمرانی کے اصولوں اور جمہوری ڈھانچہ کے یکسر مغائر عمل کہا جاسکتا ہے ۔
ملک اور ملک کے عوام کی بہتری اور ترقی کیلئے کرنے کے ایسے بے شمار کام ہیں جن پر حکومت کوئی توجہ نہیں کر رہی ہے ۔ ملک میں بیروزگاری کے خاتمہ کیلئے کوئی جامع اسکیم اس حکومت کے پاس نہیں ہے ۔ ملک میں نگہداشت صحت کا شعبہ ایسا ہے جس کی قلعی کورونا دور میں کھل گئی تھی ۔ سانس لینے کیلئے عوام کو آکسیجن تک فراہم نہیں کی جاسکی تھی ۔ آج بھی خود حکومت کے دعوی کے مطابق 80 کروڑ افراد کو مفت راشن دیا جاتا ہے ۔ ان مسائل پر توجہ کرنے کی بجائے حکومت اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہے ۔ وہ در اصل ملک سے اپوزیشن کا خاتمہ کرنے کے منصوبہ کے تحت پیشرفت کر رہی ہے ۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے اس ملک میں ہریانہ اور مہاراشٹرا میں بیک وقت اسمبلی انتخابات نہیں کروائے جاتے اور انتظامی امور کا عذر پیش کیا جاتا ہے لیکن ملک کی تمام ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کیلئے ایک ساتھ انتخابات کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ملک میں خواتین کی سلامتی اور تحفظ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کیلئے منصوبے بنائے جانے چاہئیں۔ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کیلئے کوشش کی جانی چاہئے ۔ لیکن مودی حکومت کی ترجیحات عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اپنا سیاسی فائدہ اور پارٹی کا مستقبل ہے ۔ ملک میں جو روایت رہی ہے وہ ایک وفاقی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے والی روایت ہے اور اس کے نتیجہ میں علاقائی جذبات اور احساسات کی نمائندگی ہوتی ہے لیکن بی جے پی حکومت اس روایت کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔
ہندوستان میں جو جمہوری نظام ہے وہ ہر کسی کو اپنی آواز بلند کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ علاقائی جماعتیں اپنے اپنے عوام کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے ان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ ان کے مسائل کو پارلیمنٹ کے ایوانوں تک پہونچایا جاتا ہے ۔ ہمارا ملک جتنا وسیع و عریض ہے اس کے مطابق کئی علاقوں میں کئی طرح کے کلچر اور طریقے ہیں اور مودی حکومت اس کو تہس نہس کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت کو جہاں سنجیدگی سے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہیں اپوزیشن کو بھی اس معاملہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مودی حکومت کے اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔