وقف بل ‘ جے پی سی اور من مانی

   

بات کی بات بھی اور وعدے کا وعدہ ہوگا
من مانی کرنے سے عوام کا کیا بھلا ہوگا
ایک طئے شدہ پروگرام اور منصوبے کے مطابق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ترمیمی بل کو منظوری دیدی ہے ۔ اس طرح یہ بل اب پارلیمنٹ میں پیش ہونے کیلئے تیار ہے ۔ جس تیزی کے ساتھ اس بل پر پیشرفت کی گئی ہے اور جس طرح جے پی سی کے اجلاسوں میں اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو اظہار خیال کا موقع نہیں دیا گیا اور ان کی رائے کو دبا دیا گیا وہ ایک طئے شدہ منصوبے کا حصہ کہا جاسکتا ہے ۔ جس طرح سے کمیٹی کے صدر نشین جگدمبیکا پال پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ حکومت کے دباؤ میں کام کر رہے تھے اس سے جے پی سی کی تشکیل کا مقصد ہی ختم ہوگیا تھا اور محض ضابطہ کی تکمیل اور دنیا دکھاوے کیلئے جے پی سی کا وجود رہ گیا تھا ۔ کمیٹی اجلاس کے دوران صدر نشین پر کسی سے فون پر بات کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ابتداء ہی سے کسی کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے اپوزیشن کی آراء کو نظر انداز کیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 10 ارکان کو کمیٹی کے آخری اجلاس سے معطل کردیا گیا تھا اور پھر ان کی شمولیت کے بغیر ہی اس بل کو منظؤری دیدی گئی ہے ۔ یہ بل اب کابینہ میں غور و خوض کیلئے پیش ہوسکتا ہے اور پھر کابینہ میں منظوری کے بعدا سے پارلیمنٹ میں بھی پیش کیا جاسکتا ہے ۔ ایک انتہائی حساس اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر جس طرح سے بے ہنگم انداز میں پیشرفت کی گئی ہے اس سے حکومت کے عزائم اور ارادوں کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح سے اقلیتوں کی جائیداد و املاک کو تباہ کرنا چاہتی ہے اور ان کی حقیقی حیثیت کو ختم کرنے کے منصوبوں پر عمل کر رہی ہے ۔ اپوزیشن ارکان نے اس بل میںشمولیت کیلئے کئی تجاویز پیش کی تھیں جنہیں مسترد کردیا گیا اور برسر اقتدار اتحاد سے تعلق رکھنے والے ارکان کی 12 تجاویز کو قبول کرلیا گیا ۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں اپوزیشن کی رائے کو تسلیم کرنے یا اس کا جائزہ لینے کی بھی تیار نہیں تھی اور اس نے محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے جے پی سی کی تشکیل عمل میں لائی تھی ۔ حکومت اس بل کے تعلق سے تجاویز پر غور کرنے یا ان کو شامل کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں تھی ۔
من مانی انداز میں فیصلے کرتے ہوئے مسلط کرنے میں مرکز کی نریندر مودی حکومت شہرت رکھتی ہے ۔ اس نے کئی اہم فیصلے انتہائی من مانی اور اڈھاک انداز میں لئے ہیں ۔ اہم ترین مسائل پر بھی ایوان میںمباحث کروانے سے گریز کرتے ہوئے انہیںمحض ندائی ووٹ سے منظوری دلائی گئی تھی ۔ اپوزیشن ارکان کے بائیکاٹ یا ان کی معطلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھایا ہے ۔ تاہم جہاںتک وقف کا مسئلہ ہے اس پر حکومت کو کم از کم ایسی جلد بازی یا تنگ نظری و تعصب کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرناچاہئے ۔ ملک کی تمام ریاستوں میں لاکھوں ایکڑ پر پھیلی ہوئی وقف جائیدادیں ہیں ۔ ان کو ہڑپنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ان کی آبائی جائیدادوں سے محروم کرنے کے مقصد سے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے اور اس میں کسی کی رائے اور تجویز کو بھی قبول کرنے کیلئے حکومت تیار نظر نہیں آتی ۔ حکومت کے کرنے کے بہت سے کام ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے لیکن حکومت ایسا نہیں کر رہی ہے اور وہ صرف اقلیتوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے عمل میں مصروف ہے ۔ یکے بعد دیگر مخالف مسلم اقدامات کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جو بتدریج دراز ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ یہ سلسلہ تھمنا چاہئے ۔ رکنا چاہئے ۔ حکومت کو من مانی انداز میں فیصلے کرتے ہوئے کسی ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے ۔ یہ سب کچھ دستور اور قانون میںفراہم کردہ گنجائش کے یکسر برخلاف اور مغائر اقدامات ہیں۔
جس تیزی کے ساتھ یہ بل جے پی سی میں منظور کیا گیا اور جس طرح سے اپوزیشن ارکان کی رائے کو دبادیا گیا اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس پر مزید تیزی سے پیشرفت کے اندیشے ہیں۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں اور خاص طور پر حکومت کی حلیف جماعتوں جیسے جے ڈی یو اور تلگودیشم پارٹی کو اپنے موقف کی وضاحت کرنی چاہئے ۔ انہیں حکومت پر اثر انداز ہوتے ہوئے اس بل کو روکنا چاہئے ۔ حکومت ان دونوں ہی جماعتوں کی تائید پر ٹکی ہوئی ہے ۔ ایسے میں نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو کی ذمہ داری ہے کہ وہ مودی حکومت کو مسلم دشمن اقدامات سے روکیں۔ انہیںمسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے آگے آنا چاہئے ۔