وقف بل ‘ حکومت کی ہٹ دھرمی

   

مہنگی ہر ایک شے اس جہاں کی ہوئی
لیکن افسوس سستا ہوا آدمی
وقف ترمیمی بل کو شدید مخالفتوں کے باوجود آج لوک سبھا میں پیش کردیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی ایوان میں پیشکشی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے حکومت پر ہٹ دھرم رویہ اختیار کرنے کا الزامعائد کیا ۔ بی جے پی نے ابتداء ہی سے اس مسئلہ پر نامناسب رویہ اختیار کیا ہے اورا س نے اپنے ایجنڈہ اور منصوبوںکو عملی شکل دینے کیلئے سارا ڈرامہ رچا تھا ۔ پہلے تو ملک میں اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ان کی بحالی کیلئے حکومتوں کو کوشش کرنے کی ضرورت تھی ۔ ملک بھر میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں ایکڑ وقف اراضیات ہیں اور ان پر ناجائز قبضے ہوگئے ہیں۔ ان کو ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضرورت تھی ۔ ملک میں مسلمانوں کی جو انتہائی ابتر معاشی اور تعلیمی و سماجی حالت ہے اس کو بہتر بنانے کیلئے ضروری تھا کہ وقف جائیدادوں کو بحال کیا جاتا ان پر ناجائز قبضے برخواست کئے جاتے اور ملک بھر میں وقف بورڈز کے ذریعہ مسلمانوں کی حالت زار کو تبدیل کرنے کیلئے اقدامات کا آغاز کیا جاتا ۔ حکومت اپنے طور پر تو بجٹ میں مسلمانوں کیلئے کچھ بھی رقمی امداد فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ حد یہ ہے کہ پوسٹ میٹرک اور پری میٹرک اسکالرشپس کو بند کرنے کے قریب پہونچا دیا گیا ہے اور ان کی رقومات میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے ۔ اب یہ رقومات بالکل ہی برائے نام رہ گئی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اب حکومت مسلمانوں کے آبا و اجداد کی اوقافی جائیدادوں کو بھی بری نظر سے دیکھ رہی ہے ۔ وقف بورڈز حکومت کو برداشت نہیں ہو رہے ہیں اور ان کے اختیارات کو ایک طرح سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جو وقف ترمیمی بل حکومت نے تیار کیا تھا اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ اس کے بعد محض حلیف جماعتوں کی خوشنودی کیلئے ضابطہ کی تکمیل کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل کو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے رجوع کردیا گیا ۔ اس کمیٹی میں بھی بی جے پی کے ارکان کی اکثریت تھی اور انہوں نے حکومت اور پارٹی کے ایجنڈہ ہی کو آگے بڑھایا ۔ جے پی سی نے اس طرح سے کام نہیں کیا جس طرح سے اسے کرناچاہئے تھا ۔
جے پی میںضابطہ کی تکمیل کیلئے اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ کو بھی شامل کیا گیا تھا ۔ اپوزیشن ارکان کی رائے کو اور ان کی تجاویز کو خاطر میں نہیں لایا گیا ۔ انہوں نے جو ترامیم پیش کی تھیں انہیں نظر انداز کیا گیا ۔ ان کے مشوروں کو اہمیت نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کا جائزہ لیا گیا ۔ اس کے علاوہ جے پی سی نے اپنی رپورٹ منظور کرنے سے قبل ہی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دس ارکان پارلیمنٹ کو معطل بھی کردیا تھا ۔ اس طرح جے پی سی نے بھی واضح کردیا تھا کہ اس کا واحد مقصد حکومت اور بی جے پی کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانا ہی تھا ۔ مختلف مواقع پرم لک میں مختلف جے پی سی تشکیل دی گئی تھیں اور انہوں نے قاعدہ اور روایات کے مطابق کام کیا تھا ۔ وقف ترمیمی بل سے متعلق جے پی سی نے محض خانہ پری سے کام لیا ہے ۔ اپوزیشن ارکان کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ وہ طئے شدہ ایجنڈہ کے مطابق کام کر رہی ہے اور اپوزیشن ارکان کو اہمیت دینے کیلئے وہ تیار نہیں ہے ۔ یہ صورتحال حکومت کی ہٹ دھرمی کو ظاہر کرتی ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے پہلے ہی سے فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ کس طرح سے کرنا ہے اور کب کرنا ہے ۔ حکومت مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کو ہڑپنے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے مقصد سے سارے حربے استعمال کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں حتی القدور اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ حکومت اپنی اکثریت کے زعم اور اقتدار کے نشے میں کام کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔
حکومت نے محض تلگودیشم سربراہ چندرا بابو نائیڈو اور جے ڈی یو کے سربراہ نتیش کمار کو موقع فراہم کرنے کیلئے جے پی سی تشکیل دی تھی ۔ وہ اپنے طور پر من مانی فیصلے کرنے کی عادی ہے تاہم چونکہ اس کے اقتدار کا دار و مدار ان دونوں جماعتوں کی تائید پر ہے ایسے میں دونوں جماعتوں کو اقلیتوں میں ایک موقع فراہم کرنے جے پی سی تشکیل دی گئی تاکہ اقلیتیں ان سے پوری طرح دور نہ ہوجائیں۔ اب جبکہ حکومت نے لوک سبھا میں یہ بل پیش کردیا ہے تو چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ منصفانہ موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت پر اثر انداز ہوں اور اس بل کی منظوری کو روکا جائے تاکہ اقلیتوں کی حق تلفی نہ ہونے پائے ۔