نفرت کا کیا گلہ کہ محبت بنی سزا
شعلوں سے بچکے نکلے تو بارش میں جل گئے
مرکز میں برسر اقتدار نریندر مودی حکومت نے اپنے ارادے واضح کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل کو ایوان میں پیش کرنے اور منظوری دلانے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے ۔ حکومت اس بل کو ایوان میں پیش کرنا چاہتی تھی تاہم اسے اب ایوان کی ایک کمیٹی سے رجوع کردیا گیا ہے ۔ جس طرح سے حکومت نے خاموشی سے یہ بل تیار کیا تھا اور اچانک ہی اس کو قانون کی شکل دینے کی کوشش شروع کی تھی اس سے حکومت کے عزائم کا پتہ چلتا ہے ۔ حکومت اپنی سابقہ دو معیادوں میں مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں مصروف رہی ۔ انہیں کبھی بیف کے نام پر ہراساں کیا گیا تو کبھی حجاب پر امتناع کی کوشش کی گئی ۔ بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزروں سے منہدم کردیا گیا ۔ ان کی دوکانات تباہ کردی گئیں۔ کئی ریاستوں میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے قرار دادیں اسمبلی میں منظور کی گئیں۔ کبھی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کی دھمکیاں دی گئی ۔ کبھی مسلمانوں کو ہجومی تشدد کے نام پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا ۔ کبھی سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے مقدمات میں ماخوذ کیا گیا تو کبھی سی اے اے اور این آر سی کے نام پر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کچھ گوشوں نے مسلمانوںکے ووٹنگ کے حق کو ختم کرنے اور اسے چھین لینے کی وکالت کی تھی اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس کی ابتداء مسلمانوں کی وقف جائیدادیں چھیننے کی کوشش سے کرنا چاہتی ہے ۔ وقف ترمیمی بل کے ذریعہ حکومت نے جو منصوبہ بنایا ہے اس سے مسلمانوں کو فوری حرکت میں آنے اور چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ مرکز میں اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے تین طلاق کے قانون کو منسوخ کروایا گیا ۔ یکساں سیول کوڈ کی بات کی جا رہی ہے اور اب اس کا نام بدل کر سکیولر سیول کوڈ رکھنے کا بہانہ کیا جا رہا ہے اور پھر اب مسلمانوں کی لاکھوں کروڑ روپئے کی وقف املاک اور جائیدادوں کو ہڑپنے کا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے ۔اگر اس بل کو مرکزی حکومت قانونی شکل دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اس کے ذریعہ مسلمانوں کو لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ ان کی املاک چھین لی جائیں گی ۔
مسلمانوں کے آباء و اجداد نے لاکھوں کروڑ روپئے کی جائیدادیں وقف کر رکھی تھیں۔ آج مسلمان اس سے جتنا ممکن ہوسکے استفادہ کر رہے ہیں۔ پہلے ہی سے وقف جائیدادوں اور املاک کو کسی نہ کسی بہانے سے چھینا گیا ہے اور بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس کے فوائد سے محروم کیا گیا ہے ۔ اس کی قیمت ادا نہیں کی گئی اور نہ ہی کرایہ ادا کیا جا رہا ہے الٹا وقف جائیدادوں کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ اب اگر مرکزی حکومت کے بل کو قانونی شکل مل جاتی ہے تو پھر مسلمانوں کی رہی سہی جائیدادیں بھی چھین لینے کی راہ ہموار ہوگی ۔ ایسے میں مسلمانوں کو ‘ جو کئی مسائل میں تغافل اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘ اب چوکس ہوجانا چاہئے ۔ انہیں حرکت میں آجانا چاہئے ۔ اس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے ۔ رائے عامہ ہموار کی جانی چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین سے نمائندگی کی جانی چاہئے ۔ محض سیاسی جماعتوں کو اس کیلئے ذمہ دار سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ ماہرین قانون سے مشاورت کرتے ہوئے عدالتی راستہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ایک دوسرے پر ذمہ داری عائد کرتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے سے بچنا چاہئے ۔ اگر تغافل اور تن آسانی کا سلسلہ برقرار رہا تو پھر وقف جائیدادوں سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے ۔ یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ بات محض شبہات تک محدود نہیں ہے ۔
ملک کی ہر ریاست میں اور ہر ریاست کے ہر شہر میں اس کے تعلق سے رائے عامہ ہموار کرتے ہوئے اپنی صفوں میں موجود دلالوں سے بھی ہوشہار رہنا چاہئے ۔ ان کے بہلاوے اور چالاکیوں کو سمجھتے ہوئے ان کے جال میں پھنسنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج بھی ملک بھر میں جو وقف جائیدادیں ہیں وہ انتہائی قیمتی ہیں اور ان کا صحیح اور موثر استعمال کیا جائے تو ملک بھر کے مسلمانوں کی تعلیمی ‘ معاشی اور سماجی حالت کو سدھارنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اب خواب غفلت سے جاگنے کا وقت آگیا ہے اور منظم انداز میں قانون کی مدد سے اس جدوجہد کو شروع کرنے اور وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔