بل کی مخالفت اور تائید میں سرگرم نمائندگیاں‘ تین ریاستوں کے موقف کی سماعت، تلنگانہ و آندھرا پردیش نے بل کی مخالفت کی
… رشید الدین …
حیدرآباد۔/28 ستمبر ، ۔ مرکزی حکومت کے وقف ترمیمی قانون 2024 پر قائم کی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے آج حیدرآباد میں ایک روزہ سماعت کا اہتمام کیا۔ وقف ترمیمی قانون اور خاص طور پر 44 ترمیمات کے بارے میں سماعت ہنگامہ خیز ثابت ہوئی اور بل کی مخالفت اور تائید دونوں جانب سے بھرپور دلائل پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ سماعت کے موقع پر بعض ہندو تنظیموں نے اشتعال انگیز نعرہ بازی کے ذریعہ ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کی تاہم پارلیمانی کمیٹی کے عہدیداروں اور ریاستی حکومت کے حکام نے مداخلت کرتے ہوئے سرزنش کی اور نعرہ بازی سے روک دیا۔ شہر کی ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں سینئر قائد بی جے پی جگدمبیکا پال کی قیادت میں کمیٹی نے صبح 10 بجے سے شام تقریباً 5 بجے تک سماج کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کی سماعت کی اور اسٹیک ہولڈرس کی تجاویز اور مشورے بھی حاصل کئے۔ سماعت کے موقع پر بی جے پی اور غیر بی جے پی ارکان کے درمیان تلخ مباحث دیکھے گئے۔ سماعت کے موقع پر صدرنشین جگدمبیکا پال کے علاوہ اسد الدین اویسی، مولانا محب اللہ ندوی، ڈاکٹر ایم وی کلکرنی، عمران مسعود، تیجسوی سوریا ، نشیکانت دوبے، ابھیجیت گنگوپادھیائے، کلیان بنرجی، اروند ساون، برج لال، ڈاکٹر سید ناصر حسین، محمد ندیم الحق، محمد عبداللہ، ڈی کے ارونا، چندر شیکھر کمار اور دوسرے ارکان موجود تھے۔ کانگریس اور ترنمول کانگریس کے ارکان نے سماعت کے دوران بی جے پی ارکان کے رویہ پر اعتراض جتایا جس کے نتیجہ میں اجلاس میں مباحث ہوئے۔ ایک مرحلہ پر طئے شدہ فہرست کے بغیر بل کے مخالفین کو ترجیح دینے پر کانگریس کے ناصر حسین کمیٹی کے صدرنشین جگدمبیکا پال سے اُلجھ پڑے۔ بل کے بارے میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے تلنگانہ، آندھرا پردیش اور چھتیس گڑھ حکومتوں، وقف بورڈز اور اسٹیک ہولڈرس کی سماعت کی۔ کمیٹی نے تلنگانہ وقف بورڈ کو حال ہی میں نئی دہلی میں ملاقات کا وقت دیا تھا لہذا سرکاری عہدیداروں اور وقف بورڈ کے ذمہ داروں کے بجائے مسلم جماعتوں، تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرس کو ملاقات کا موقع دیا گیا۔ سماعت کے دوران جگدمبیکا پال نے ایسے سوالات کو روک دیا جن میں بی جے پی حکومت کے فیصلہ کو چیلنج کیا جارہا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وقف ترمیمی بل پارلیمانی مشترکہ کمیٹی کے زیر غور ہے اور کمیٹی بالکلیہ طور پر غیر جانبدار ہے لہذا حکومت کے موقف پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے تیقن دیا کہ وہ ترمیمی بل کے بارے میں پیش کی گئی تجاویز پر غور کریں گے اور رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ رگھونندن راؤ اور ایٹالہ راجندر نے حامیوں کے ساتھ پہنچ کر کمیٹی سے ملاقات کی اور بل کی تائید میں رائے ظاہر کی۔ دونوں ارکان پارلیمنٹ کے حلقہ جات سے بڑی تعداد میں کسان، قولدار کسان، وکلاء اور وقف اراضیات پر قابضین نے کمیٹی کے روبرو پیش ہوکر بل کی تائید کی۔ کمیٹی میں موجود بی جے پی رکن ڈی کے ارونا کی ایماء پر صدرنشین جے پی سی نے بل کے مخالف وفود کو ملاقات کا موقع دیا۔ ایک مرحلہ پر ہندو تنظیموں کے نمائندے اس وقت برہم ہوگئے جب متولیوں، سجادگان اور مشائخ کے ایک بڑے وفد کو نمائندگی کیلئے ہال میں مدعو کیا گیا۔ ہندو تنظیموں کو اعتراض تھا کہ طویل انتظار کے باوجود بل کے مخالفین کو ترجیح دی جارہی ہے۔ انہوں نے بڑی تعداد میں جمع ہوکر ’’ وی وانٹ جسٹس‘‘ اور ’’ بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرے لگائے۔ صورتحال کو بگڑتا دیکھ کر ڈی کے ارونا ہال سے باہر آئیں اور انہوں نے ہندو تنظیموں کے نمائندوں کو تیقن دیا کہ جلد ہی وہ مدعو کریں گی۔ وشوا ہندو پریشد، ہندو مہا سبھا ، بی جے پی اقلیتی مورچہ کے علاوہ مختلف عدالتوں کے وکلاء نے علحدہ علحدہ طور پر نمائندگیاں کیں۔ مجموعی طور پر بل کے مخالفین سے زیادہ تائید میں تنظیمیں اور افراد کی اکثریت تھی اور وہ پوری تیاری سے کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش حکومتوں کی جانب سے بل کی مخالفت کی گئی۔ جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر ’سیاست‘ و رکن قانون ساز کونسل نے بل کے اہم نکات پر کمیٹی کے روبرو مدلل طور پر دلائل پیش کرتے ہوئے وقف بل سے دستبرداری کا مطالبہ کیا۔ بیورو چیف روز نامہ ’سیاست‘ مسٹر رشید الدین نے بل کی مخالفت میں دلائل پیش کئے اور 2009 میں بی جے پی انتخابی منشور کا حوالہ دیا جس میں رحمان خاں رپورٹ کی تائید کی گئی تھی۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود تفسیر اقبال ( آئی پی ایس) ، ڈائرکٹر اقلیتی بہبود یاسمین باشاہ ( آئی اے ایس) نے نمائندگی کی۔ آندھراپردیش حکومت کی جانب سے سکریٹری اقلیتی بہبود سی سریدھر ( آئی اے ایس ) ، ریٹائرڈ آئی اے ایس عہدیدار محمد شفیق الزماں، ریٹائرڈ آئی پی ایس شیخ محمد اقبال، سابق ایم ایل سی احمد شریف اور چیف ایگزیکیٹو آفیسر ایل عبدالقادر نے کمیٹی سے نمائندگی کی۔ تلنگانہ حکومت اور کانگریس پارٹی کی جانب سے حکومت کے مشیر محمد علی شبیر نے بل کی مخالفت میں کمیٹی کے روبرو بیان دیا۔ صدرنشین اقلیتی کمیشن طارق انصاری، بی جے پی رکن پارلیمنٹ چیوڑلہ کونڈا وشویشور ریڈی، سابق وزیر داخلہ محمد محمود علی، سابق صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم، سابق صدرنشین وقف بورڈ مسیح اللہ خاں، ارشد علی خاں، صدرنشین حج کمیٹی مولانا غلام افضل بیابانی خسرو پاشاہ، مولانا ظہیر الدین صوفی، جنرل سکریٹری جمعیۃ العلمائے ہند تلنگانہ پیر خلیق احمد صابر، صدرنشین اقلیتی اقامتی اسکول سوسائٹی فہیم قریشی کے علاوہ مسلم خواتین کی تنظیموں، انجمن صوفی سجادگان، آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ، اسوسی ایشن آف بوڈ اپل، جوبلی پلوی انکلیو ویلفیر اسوسی ایشن، کنوینر رعیتو ہکولہ پوراٹا سمیتی، آل انڈیا ملی کونسل آندھرا پردیش برانچ، مسلم ایڈوکیٹس اسوسی ایشن، یونائٹیڈ مسلم فورم وجئے واڑہ، ایس ڈی پی آئی اے پی برانچ، جمعیۃ اہلحدیث، ہندو واہنی، وناواسی کلیان پریشد اور دوسروں نے نمائندگی کی۔