وقف ترمیمی قانون ‘ بنگال میں تشدد

   

اگر ضمیر ہے تابوتِ بے حسی میں بند
یزیدِ شہر سے پھر بیعت میں قباحت کیا
وقف ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ کئی مسلم اداروں اور تنظیموں کی جانب سے احتجاج شروع کیا گیا ہے ۔ عوام بھی اس احتجاج کا حصہ بن گئے ہیں۔ کئی سیاسی جماعتوں نے بھی اس پر حکومت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے اور وہ اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع ہو رہی ہیں۔ عوام اپنے مخالفانہ جذبات کا اس طرح کے احتجاج کے ذریعہ اظہار کر رہے ہیں۔ مغربی بنگال میں یہ احتجاج زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے ۔ اب اس احتجاج کو بدنام کرنے کیلئے اس میں تشدد کو بھڑکایا جا رہا ہے ۔ بنگال کے عوام بھی اس متنازعہ قانون کے خلاف احتجاج ضرور کر رہے ہیں لیکن جو تشدد اس احتجاج میں بھڑکایا جا رہا ہے اس سے چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ بنگال میں بی جے پی کی جانب سے ممتابنرجی حکومت کے خلاف سیاسی مہم شروع کی گئی ہے ۔ بی جے پی بنگال کے حالات کا پہلے بھی استحصال کرتی رہی ہے ۔ وہاں بھی فرقہ وارانہ منافرت کے جذبات کو بھڑکایا گیا ہے اور وہاں حالات کو بگاڑنے اور کشیدہ کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ سیاسی اور معمولی نوعیت کے بھی جو واقعات پیش آتے رہے ہیںان کو بھڑکاتے ہوئے بی جے پی نے ریاست میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ س کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اب بھی بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ یہی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ریاست میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کوسبوتاج کرنے کی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے ۔ کچھ عناصر کا استحصال کرتے ہوئے انہیں احتجاج میں تشدد بھڑکانے کیلئے اکسایا جا رہا ہے ۔ فرقہ پرست عناصر کا سہارا لیتے ہوئے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بگاڑی جارہی ہے اور سماج میں دوریاں پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے ۔ بنگال میں اگر معمولی سا بھی کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو بی جے پی اس کا استحصال کرنے سے گریز نہیں کرتی ۔ اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور بنگال کی ممتابنرجی حکومت کو بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ یہی طریقہ کار اب بھی اختیار کیا جا رہا ہے اور تشدد کو ہوا دی جا رہی ہے ۔
وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج سے قبل رام نومی کے جلوس کے دوران کئی مقامات پر فرقہ پرست عناصر ہتھیاروں کے ساتھ گھومتے اور ریلی نکالتے ہوئے دیکھے گئے تھے ۔ یہ وہی عناصر ہوسکتے ہیں جن کے ذریعہ تشدد کو ہوا دی جا رہی ہو اور ریاست میں حالات کو بگاڑتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ ممتابنرجی حکومت کی جانب سے اعلان کردیا گیا ہے کہ مغربی بنگال میں وقف ترمیمی قانون پر عمل آوری نہیں کی جائے گی اور اس قانون کو مسترد کیا جا رہا ہے ۔ ایسے میں بی جے پی ریاست کو بدنام کرنے کی حکمت عملی پر کام کرتی نظر آ رہی ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے بنگال میں کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کی جا رہی ہے لیکن اب تک کی گئی تمام کاوشوں اورسازشوں دونوں ہی میں بی جے پی ناکام ہی رہی ہے ۔ اسے کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے ۔ ریاست کے عوام ممتابنرجی سے پوری طرح سے مطمئن نظر آتے ہیں ۔ ممتابنرجی نے ماضی میں سی اے اے اور این آر سی کو بھی مسترد کردیا تھا اور بنگال میں اس پر عمل نہ کرنے کا اعلان کردیا گیا تھا ۔ اسی طرح اب وقف ترمیمی قانون پر بھی عمل نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس سے بی جے پی اور اس کی ہم قبیل ہندوتوا تنظیمیں چراغ پا نظر آ رہی ہیں ۔ اسی وجہ سے ریاست میں امن و ضبط کی صورتحال کو بگاڑنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہوئے اقتدار تک رسائی کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ س طرح کے منصوبوں سے چوکس رہنے اور انہیں ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔
بات صرف مغربی بنگال تک محدود نہیں ہے ۔ متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف جس طرح بنگال میں احتجاج شروع ہوا ہے اسی طرح سارے ملک میں احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ آئندہ وقتوں میں ملک کے مختلف حصوں میں بھی اس قانون کے خلاف احتجاج مزید پھیل سکتا ہے ۔ ایسے میں مفادات حاصلہ کی جانب سے احتجاج کے دوران تشدد برپا کرنے کی منظم سازشیں کی جاسکتی ہیں۔ ایسے عناصر سے چوکس رہنے اور ان کے عزائم کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ تشدد کے ذریعہ اس طرح کے احتجاج کو بدنام کرنے اور پھر اس پر پابندی عائد کرنے کی بھی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے ۔ ایسے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے سبھی کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور نفاذ قانون کی جو ایجنسیاں ہیں انہیں ایسے معاملات کا سخت نوٹ لیتے ہوئے حقیقی خاطیوں کا پردہ فاش کرنا چاہئے ۔
ٹاملناڈو میں بی جے پی کا اتحاد
جنوب میں کسی بھی ریاست میں اقتدار سے محرومی کے بعد بی جے پی کی جانب سے جنوبی ہند میں اپنے موقف کو مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تلنگانہ میں بی جے پی اپنے عزائم کے ساتھ سرگرم ہے تو آندھر اپردیش میں اسے چندرا بابو نائیڈو کی صورت میں ایک مضبوط سہارا ملا ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہوگئی ہے جبکہ کیرالا میںوہ قدم جمانے میں اب تک ناکام ہی رہی ہے ۔ ایسے میںٹاملناڈو پر بی جے پی نے توجہ مرکوز کی ہے اور وہاںآل انڈیا انا ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کرلیا گیا ہے ۔ حالانکہ دونوں جماعتوںمیںحالیہ وقتوں تک اختلاف رائے دیکھا گیا اور کئی مسائل پر الگ الگ موقف اختیار کیا گیا تھا تاہم ابٹاملناڈو میں ایم کے اسٹالن حکومت کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے آل انڈیا انا ڈی ایم کے نے بھی بی جے پی کا سہارا لینا ضروری سمجھا ہے ۔ خاص طور پر اس صورتحال میں جبکہ آل انڈیا انا ڈی ایم کے کے پاس کوئی عوامی مقبولیت رکھنے والا چہرہ نہیںہے ۔ بی جے پی کیلئے بھی کوئی مقامی جماعت کی ضرورت تھی کیونکہ ہندی مسلط کرنے کے مسئلہ پر سے ٹامل عوام کی ناراضگی کا سامنا تھا ۔ دونوں ہی جماعتوں نے اپنی اپنی سہولت اور ضرورت کے اعتبار سے یہ اتحاد کیا ہے جسے عوام کی تائید ملنی مشکل نظر آتی ہے ۔