مانوس ہو چلا تھا تسلی سے حالِ دل
پھر تو نے یاد آکے بدستور کردیا
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے متنازعہ وقف ترمیمی قانون پر عبوری فیصلہ سنادیا ہے ۔ حالانکہ یہ ایک عبوری فیصلہ ہے اور اس پر مکمل سماعت اور مقدمہ کی یکسوئی کیلئے وقت درکار ہوسکتا ہے ۔ تاہم جو عبوری فیصلہ دیا گیا ہے اس کا تفصیلی طور پر جائزہ لیتے ہوئے اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے سے حکومت اور فریقین میں کس کو راحت ملی ہے ۔ عدالتی فیصلے کے مطابق جو تبدیلیاں ہوسکتی ہیں ان کا بغور جائزہ لیتے ہوئے مقدمہ کی عدالت میں قطعی یکسوئی تک موثر پیروی کی ضرورت ضرور اس فیصلے سے محسوس کی جانے لگی ہے کیونکہ عبوری فیصلے کے نتیجہ میں مسلمانوں کو جو شکوک و شبہات لاحق تھے ان کی یکسوئی نہیں ہوئی ہے اور ابھی انہیں دور نہیں کیا جاسکا ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صورتحال فی الحال گنجلک ہے اور اس کو سمجھنے کیلئے سنجیدگی کے ساتھ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مقدمہ کی قطعی یکسوئی تک اس تعلق سے موثر پیروی کی جاسکے اور اس وقت تک جو صورتحال ہوگی اس کے مطابق وقف جائیدادوں کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے ۔ عدالت نے جو عبوری فیصلہ دیا ہے اس کے مطابق وقف بائی یوزر کی جو گنجائش تھی اس کو ختم کردیا گیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کئی وقف جائیدادوں کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور اس پر قانونی امکانات کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ اس مقدمہ میں سب سے اہم پہلو یہ محسوس کیا جانے لگا ہے کہ وقف کو شعائر اسلام میں شمار کیا جاتا تھا تاہم اس مقدمہ کی عدالت میں تاحال جو پیروی حکومت کی جانب سے کی گئی ہے اس کے مطابق وقف کو سکیولر ادارہ کے طور پر دیکھا گیا ہے اور مسلم فریقین کی جانب سے بھی اسی پہلو سے پیروی کی گئی ہے ۔ اسی کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے کہ عبوری فیصلے میں مسلمانوں کو وہ کچھ راحت نہیں مل پائی ہے جو ملنی چاہئے تھی یا جس کی توقع کی جا رہی تھی ۔ وقف ترمیمی قانون کے نام پر حکومت نے جو منصوبے بنائے ہیں ان کی تکمیل کی راہ ہموار ہوئی ہے اور یہی بات سب سے زیادہ قابل تشویش ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک مسلم فریقین کی بات ہے تو یہ دعوی سے کہا جاسکتا ہے کہ ان کیلئے عدالتی فیصلہ کسی جھٹکے سے کم نہیں ہے کیونکہ جو متنازعہ قانون کی جن گنجائشوں کو روکنے کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا تاہم یہ گنجائشیں پوری طرح سے رک نہیں پائی ہیں۔ وقف بورڈ میں سی ای او کے غیر مسلم ہونے کی مخالفت کی گئی تھی ۔ عدالت نے عبوری فیصلے میں کہا کہ ترجیحی بنیادوں پر مسلمان سی ای او ہونا چاہئے ۔ اس میں غیر مسلم سی ای او کے تقرر کی گنجائش برقرار رکھی گئی ہے اور حکومتوں کی جانب سے اس گنجائش کا استحصال کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کے تقرر کی بھی راہ ہموار ہوگئی ہے اور کہا گیا ہے کہ دو تہائی اکثریت مسلم ارکان کی ہوسکتی ہے تاہم غیر مسلم ارکان کا بھی تقرر ہوسکتا ہے ۔ اس گنجائش کو بھی مسلم فریقین کی جانب سے عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا اور اسے روکنے میں بھی مسلم فریقین کو کوئی کامیابی نہیں مل پائی ہے ۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے ایک بار پھر حکومتوں کو وقف اداروں میں مداخلت کا موقع مل سکتا ہے اور حکومتیں اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اس کا استحصال کرسکتی ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ مسلم فریقین کی جانب سے اس فیصلے کا کھل کر استقبال یا خیرمقدم نہیں کیا جارہا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی وجہ نظر آتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ضرور محسوس کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں مسلم فریقین اپنی پیروی اور حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لیں اور جو خامیاں رہ گئی تھیں ان کو دور کیا جاسکے ۔
اگر مسلم فریقین کی جانب سے موثر پیروی کی تیاری نہیں کی جاتی اور جو خامیاں ہیں انہیں دور نہیں کیا جاتا تو وقف جائیدادوں کے تعلق سے جو اندیشے لاحق ہوگئے ہیں وہ درست ثابت ہوسکتے ہیں۔ حکومت کیلئے عدالت کے عبوری فیصلے میں جو گنجائشیں فراہم کی گئی ہیں ان کے استحصال کے اندیشے مسترد نہیں کئے جاسکتے ۔ ان کا سنجیدگی سے تفصیلی اور قانونی دائرہ میں جائزہ لیتے ہوئے ان کو روکنے اور عدالت میں موثر پیروی کیلئے جامع تیاری کی ضرورت ہے ۔ صرف اڈھاک بنیادوں پر مخالفت سے کوئی مدد نہیں مل سکتی ۔ اس کیلئے مشترکہ اور اجتماعی کوششوں کی بھی ضرورت ہے اور اس تعلق سے بھی غور کیا جانا چاہئے ۔