وقف قانون ‘ موثر حکمت عملی ضروری

   

جس تیزی کے ساتھ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وقف ترمیمی بل کو منظورکروایا اسی تیزی کے ساتھ صدر جمہوریہ ہند شریمتی درپدی مرمو نے بھی اس بل کو منظوری دیتے ہوئے اسے قانون کی شکل دیدی ہے ۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اس مسئلہ پرجو مباحث ہوئے وہ سارے ملک نے دیکھے ہیں۔ کس طرح سے ملک میں سکیولر ذہن رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے ڈٹ کر اس بل کے خلاف اظہار خیال کیا تھا اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ اس بل کو مسلم دشمنی قرار دیا گیا تھا ۔ اب جبکہ یہ بل قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے اور صدر جمہوریہ نے اسے منظوری دیدی ہے تو کئی افراد واور تنظیموں کی جانب سے سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا جا رہا ہے ۔ کئی افراد عدالت سے رجوع ہوچکے ہیں اور کئی اس میں رجوع ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جو قانونی جدوجہد ہے وہ ضرور کی جانی چاہئے تاہم اس لڑائی کو محض علامتی اور اپنے آپ کو ہمدرد کہلانے کی حد تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ایک جامع اور منظم جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ ایسی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جس میں عدالتوں سے رجوع ہونے والے کسی بھی فریق کے موقف میں دوسرے فریق کے موقف سے کوئی تضاد نہیں ہونا چاہئے ۔ مختلف پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے قانونی ماہرین سے تفصیلی مشاورت کی جانی چاہئے اور مختلف نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیںعدالت میںچیلنج کیا جانا چاہئے ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اب یہ جدوجہد مسلمانوں کے تشخص کو بچانے کی کوشش کے طور پر دیکھی جائے اور علامتی احتجاج یا پھر علامتی قانونی درخواست بازی سے گریز کرتے ہوئے منظم انداز میں اس معاملے میں پیروی کی جانی چاہئے ۔ عدالتوں میں ڈٹ کر دلائل دئے جانے چاہئیںاور یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ اس قانون کو عدالتوں کی مدد سے روکا جائے ۔ جب تک تمام فریقین اور گوشوں میں تال میل نہیں ہوتا اور کوئی مشترکہ حکمت عملی نہیں بنائی جاتی اس وقت تک درخواست بازی یا قانونی کشاکش کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہونے مشکل ہی کہے جاسکتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رکھی جانی چاہئے ۔
مختلف ملی تنظیموں اور ہمدرد سیاسی قائدین کا ایک اجلاس بھی منعقد کیا جانا چاہئے ۔ اس قانون کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیتے ہوئے حکمت عملی کا تعین کیا جانا چاہئے ۔ ممکن ہوسکے تو قانونی اور دستوری دائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا جانا چاہئے ۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ صرف ایک محاذ پر مقابلہ آرائی کافی نہیں ہوگی ۔ کئی محاذوں پر جدوجہد کی جانی چاہئے جس کا حق ہمیں دستور میں دیا گیا ہے ۔ حکومت کو اس کے من مانی اور مسلم مخالف فیصلے کرنے کی مکمل آزادی نہیں دی جانی چاہئے ۔ اس کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کیا جانا ضروری ہے ۔ جب تک مسلمان اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے اور خود حالات کا سامنا کرنے کیلئے آگے نہیں آئیں گے اس وقت تک نا انصافیوں کا سلسلہ بند ہونا مشکل ہوجائے گا ۔ صرف دوسروں پر تکیہ کرکے بھی ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے ۔ ہمیں سکیولر ذہن رکھنے والے قائدین اور سیاسی جماعتوں کو بھی اس معاملے میں اعتماد میں لینا چاہئے اور ان کا ساتھ دینا چاہئے اور ان کا ساتھ لینا بھی چاہئے ۔ مشترکہ جدوجہد میں کامیابی کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں اور اس معاملے میں سیاسی اختلافات اور عداوتوں کو فراموش کرتے ہوئے کام کیا جانا چاہئے ۔ اپنے اپنے پرستاروں کو خوش کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے جدوجہد کا حصہ بننے والوں سے بھی چوکس رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ملت کے اجتماعی مفاد پر کوئی سمجھوتہ ہونے نہ پائے ۔
مرکزی حکومت نے اس بل کی منظوری اور اسے قانونی شکل دلانے میں اپنے عزائم آشکار کردئے ہیں۔ بل کے قانونی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی فرقہ پرست طاقتیں اور عناصر سرگرم ہوچکے ہیں اور وقف املاک کو نشانہ بنانے کی تیاریاںشروع کردی گئی ہیں۔ ایسے میںہمیں بھی اپنے حقوق کا تحفظ کرنے دستوری اور قانونی جدوجہد کو اختیار کرنا ہوگا اور ہمیںاپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے تیار ہوجانا چاہئے ۔ اجتماعی کاوشوں کے ذریعہ ملت کو نقصان سے دوچار کرنے کے عزائم اورمنصوبوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے اور آزمائش کے اس وقت سے آگے بڑھا جاسکتا ہے ۔ حالات کی سنگینی کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔