ولادت باسعادت حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام

   

قاضی حافظ سید عزیر ہاشمی قادری

اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد مبارک ہے ’’وہی ذات (باری تعالیٰ) اول ہے ، آخر ہے ظاہر ہے باطن ہے اور وہی ہر شئے کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘۔ (سورۃ الحدید) بلاشبہ یہ سب صفات حقیقتاً صرف اور صرف ذات رب ذوالجلال کو زیبا اور لائق ہیں، کوئی مخلوق ان صفات کی حقیقی طور پر متصف نہیں ہوسکتی۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ بعض صفات اپنے مقرب بندوں میں مجازی طور پر پیدا فرمادیتا ہے جیسا کہ شیخ محقق محدث دہلوی شیخ عبدالحق علیہ الرحمۃ مدارج النبوۃ میں تحریر فرماتے ہیں۔ نور، علیم، مومن، مہیمن ، ولی، ہادی، روف، رحیم، باوجود یہ ہے کہ حقیقتاً صفات خداوندی ہیں، مگر ان سے (مجازاً) حضور اکرم ﷺ  کو بھی متصف فرمایا گیا۔ اسی طرح یہ چاروں صفات اول و آخر ظاہر و باطن بھی اسی قبیل سے ہیں۔ (مفہوم مدارج النبوۃ)
مراد یہ ہے کہ علیم و حکیم یا سمیع و بصیر انسان بھی ہوتا ہے اور یہ صفات اللہ رب العزت جل شان کی بھی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ سب صفات حقیقی ہیں، ذاتی ہیں، غیرفانی ہیں، نہ تو کوئی چھین سکتا ہے، نہ ان کی ابتداء و انتہا ہے جبکہ بندے کی سب صفات عارضی ہیں، مجازی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا فرمودہ ہیں فانی ہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو چھین لے، ان کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی، اس لئے خالق اور مخلوق کی صفات میں موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔
اللہ رب العزت کا علم و اختیار لامحدود ہے، لامتناہی ہے اور ذاتی ہے، بایں معنی حضور نبی کریم ﷺ اول بھی ہیں، آخر بھی ہیں، ظاہر بھی ہیں اور باطن بھی ہیں اور عطائے خدائے علیم و خبیر سے عالم کائنات بھی۔ احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات ہستی میں سب سے پہلے جس مخلوق کو پیدا فرمایا، وہ ذات مصطفی ﷺ تھی۔ جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے۔ ارشاد فرمایا: (اول ماخلق اللہ نوری) اللہ تعالیٰ نے سب سے اول میرے نور کو تخلیق فرمایا۔ اس جگہ ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا: (اول ماخلق اللہ العقل) اللہ تعالیٰ نے سب سے اول عقل کو پیدا فرمایا، پھر ایک اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا: (اول ماخلق اللہ القلم ) اللہ تعالیٰ نے سب سے اول قلم کو پیدا فرمایا۔ ان روایات کے ہوتے ہوئے یہ دعویٰ کہاں تک درست معلوم ہوتا ہے کہ ہر شئے سے پہلے نور مصطفی ﷺہی کو خلق فرمایا گیا تھا۔ اس شبہ کو دور کرنے کے لئے تھوڑے سے غور و تدبر کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ علمائے حق کے درجات بلند فرمائے کہ انہوں نے اس بارے میں بڑے واضح ثبوت فراہم کئے ہیں۔ یہ حدیث : ’’سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا گیا‘‘ محققین و محدثین کے نزدیک یہ درجہ صحت ہی کو نہیں پہنچی، انہوں نے اس میں بہت کلام کیا۔ رہی دوسری حدیث کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا تو اس میں یہ بھی ہے کہ قلم پیدا فرمانے کے بعد سب سے پہلے اسے حکم دیا لکھ، قلم نے عرض کیا لکھوں؟ تو ارشاد فرمایا: ’’لکھ‘‘ : جو کچھ ہوگیا ہے اور جو کچھ آئندہ ابد تک ہوگا، سب لکھ دے (ترمذی شریف) اس سے معلوم ہوا کہ قلم کے پیدا ہونے سے پہلے کچھ نہ کچھ پیدا ہوچکا تھا ، اسی لئے تو حکم ہوا کہ جو کچھ ہوگیا ہے، وہ لکھ۔ حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ عرش خداوندی پانی پر تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق قلم سے قبل پانی اور عرش کو بھی تخلیق کیا جاچکا تھا، البتہ لوح محفوظ کا ذکر نہیں فرمایا گیا کہ اس کا وجود قلم سے پہلے ہے یا بعد۔ ایک اور حدیث نقل فرمائی کہ حضور نبی کریم ﷺ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺاللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شئے کو پیدا فرمایا تو آپ ﷺنے فرمایا: ائے جابر! اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کی تخلیق سے قبل تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ سب سے پہلے حضور پُرنور سرور کونین ﷺکا نور مقدس ہی سب سے پہلے ہی پیدا کیا گیا۔
ولادت باسعادت کے وقت حجابات کا اُٹھنا
حضرت آمنہ خاتون رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں: ’’حضور اکرم ﷺکی ولادت باسعادت کے وقت میں گھر میں اکیلی تھی۔ حضرت عبدالمطلب طواف کعبہ میں مصروف تھے۔ میں لیٹے لیٹے جونہی اوپر نگاہ کی تو کیا دیکھی کہ کوئی بڑی شئے چھت کے راستے سے گھر میں آرہی ہے، اس سے مجھ پر ہیبت چھا گئی۔ معاً مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے ایک سفید رنگ کے پرندے نے اپنے پَر میرے جسم پر تلے ہوں جس سے وہ خوف و ہراس زائل ہوگیا، پھر دودھ کی طرح کی کوئی شئے مجھے پینے کو دی گئی جس سے مجھے مزید سکون و قرار مل گیاپھر میں نے دراز قامت اور خوبصورت عورتیں دیکھیں جوکہ عبدمناف کی بیٹیوں سے ملتی جلتی تھیں۔ وہ میرے اردگرد جمع ہوگئیں اور میرا حال پوچھنے لگیں، پھر میں نے ایک سفید رنگ کی چادر دیکھی جسے زمین سے لے کر آسمان تک آویزاں کردیا گیا پھر میں نے دیکھا کہ میرا کمرہ نہایت خوشنما پرندوں سے بھر گیا، ان کی چونچیں یاقوت اور زمرد کی طرح معلوم ہورہے تھے۔ پھر یکایک میری نگاہوں کے سامنے سے حجابات کو اٹھا لیا گیا اور میں نے زمین کے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا۔ میں نے دیکھا کہ تین جھنڈے لہرا رہے ہیں، ان میں سے ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں جبکہ تیسرا خانہ کعبتہ اللہ کی چھت پر نصب ہے۔ بعدازاں بہت سی عورتیں میرے اردگرد جمع ہوگئیں۔ اسی دوران حضرت محمد مصطفی ﷺکی ولادت باسعادت ہوگئی۔ سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ولادت باسعادت کے بعد آپ اپنا سر مبارک سجدہ میں رکھے اور انگشتِ مقدس آسمان کی طرف اُٹھائے۔
ولادت باسعادت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مقدس پر کسی بھی قسم کی کوئی الائش نہ تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی ابھی غسل مبارک فرمایا ہے۔ جسم انور سے نہایت پاکیزہ اور نفیس ترین خوشبو آرہی تھی۔ روئے تاباں چودھویں رات کے چاند کی طرف روشن اور آنکھیں قدرتی طور پر سرمگیں تھیں جبکہ دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت شریفہ تھی۔ (مدارج النبوۃ)
نور کا ظہور: حضرت سید آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ولادت باسعادت کے وقت میں نے ایسا عظیم الشان نور دیکھا جس سے سارا جہاں روشن ہوگیا۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے کمرے میں لیٹے لیٹے ملک شام کے محلات دیکھے، میں تعجب کررہی تھی جبکہ نور کا منبع خود میرا جسم اور میرا اپنا وجود تھا۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نور مجسم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور خاتم النبیین لکھا ہوا تھا۔ حالانکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی گُندھی ہوئی مٹی میں ہی تھے۔ (یعنی ابھی روح مبارک جسد انور میں داخل نہ ہوئی تھی)
حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فرمایا: حضور نبی کریم صلی اللہ وسلم کی ولادت باسعادت کے وقت میں بھی حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپؐ کے نور مقدس کے سامنے چراغ کی روشنی ماند پڑگئی۔
وصلی اﷲ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی الہ وصحبہ اجمعین

بکثرت احادیث شریف سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے آپ ﷺقبر انور سے باہر تشریف لائیں گے اور سب سے پہلے آپ ﷺکو ہی اذنِ شفاعت ملے گا۔ سب سے اول آپ ﷺہی کیلئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا اور سب سے اول آپ ﷺکی امت ہی جنت میں جائے گی۔