تم آگئے ہو تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن آئندہ ماہ ہندوستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وزارت خارجہ کی جانب سے توثیق ہوچکی ہے ۔ پوٹن 4 اور 5 ڈسمبر کو ہندوستان میں ہونگے اور وہ ہندوستانی قیادت کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال کریں گے ۔ ہند ۔ روس تعلقات میں ہونے والی پیشرفت کے تعلق سے بھی بات چیت ہوگی اور نئے شعبوں میں تعاون کو فرو غ دینے کی بھی کوشش کی جائے گی ۔ حالیہ عرصہ میں جو واقعات پیش آئے ہیں ان کے پیش نظر ولادیمیر پوٹن کے دورہ ہندوستان کی کافی اہمیت ہے ۔ ہندوستان نے حالیہ عرصہ میں روس کے ساتھ تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ۔ حالانکہ چین کے ساتھ بھی روابط کو بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات کئے گئے ہیں اور دونوں ممالک کے رویہ میں لچک اور نرمی بھی پیدا ہوئی ہے تاہم زیادہ اہمیت روس کے ساتھ تعلقات کی ہے ۔ امریکہ نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دوسری معیاد کے دوران جو رویہ ہندوستان کے تعلق سے اختیار کیا ہے اور ہندوستان پر جو شرحیں عائد کی گئی ہیں ان کے تناظر میں ولادیمیر پوٹن کے دورہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ہندوستان نے عالمی سطح پر اپنی حیثیت کو منوانے کیلئے امریکہ سے قربت کو ختم تو نہیں کیا ہے لیکن وہ امریکی فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے اپنے موقف کو پیش کرنے لگا ہے ۔ ہندوستان کی جانب سے روس سے خام تیل خریدا جا رہا ہے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ تیل کی خریداری کے مسئلہ پر ہندوستان سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ ان کا اصرار تھا کہ ہندوستان اس تیل کی خریدی کا سلسلہ بند کردے ۔ حالیہ عرصہ میں ٹرمپ نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ روس سے ہندوستان نے تیل کی خریدی روک دینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور مکمل خریدی بند ہونے میں کچھ وقت درکار ہوگا ۔ ہندوستان نے اس مسئلہ پر کوئی وضاحت نہیں کی ہے جس سے امریکی صدر کے دعووں کے تعلق سے عوام میں سوالات پیدا ہونے لگے ہیں۔ جہاںتک روس کا سوال ہے تو وہ بھی ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور ہمیشہ سے ہندوستان سے روابط کو بہتر بنائے رکھنے اور انہیں استحکام دینے کے تعلق سے ہی اشارے دیتا رہا ہے ۔
اب جبکہ ہند ۔ امریکہ تعلقات میں ایک طرح کی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ بظاہر ڈونالڈ ٹرمپ اور نریندر مودی ایک دوسرے کے تعلق سے بھلے ہی نرم رویہ رکھتے ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ وقفہ وقفہ سے مخالف ہند ریمارکس اور تبصرے کرنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تعلق سے ٹرمپ کا رویہ نرم ہوگیا ہے ۔ انہوں نے پاکستانی فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کو وائیٹ ہاوز میں مدعو کیا تھا ۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی ان کی ملاقاتیں رہی ہیں اور وہ پاکستان سے تعلقات کو زیادہ موثر ڈھنگ سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ہندوستان نے فوری اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکہ سے اختلاف رائے کا آغاز کیا اور روس کے ساتھ تعلقات کو زیادہ بہتر بنانے کیلئے اقدامات شروع کئے ہیں ۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جئے شنکر بھی روس کا دورہ کرچکے ہیں اور دوسری سطحوں پر بھی باہمی دوروں میں اضافہ ہوا ہے ۔ اب خود صدر روس ولادیمیر پوٹن ہندوستان آ رہے ہیں تو یہ س بات کا اشارہ ہے کہ روس بھی ہندوستان سے تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور ان کو مستحکم رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنا چاہتا ۔ یقینی طور پر روس اپنا تیل ہندوستان کوفروخت کرنے کا سلسلہ برقرار رکھنا چاہتا ہے اور ہندوستان کیلئے بھی یہ نفع بخش سودا ہوسکتا ہے ۔ اس معاملے پر دونوں ہی ممالک کے قائدین کو سنجیدگی سے غور و خوض کے بعد ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے باہمی مفادات پورے ہوسکیں۔
حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں لیکن وہ ساری دنیا کو اپنے ہی اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں اور اس معاملے میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ہی ان کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ امریکی فیصلوں کو قبول کرنے کی بجائے اپنے اور اپنے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ ہندوستان کو بھی اسی راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے اور کسی بیرونی دباؤ کو قبول کئے بغیر ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی بھی ملک سے تعلقات کا تعین کیا جانا چاہئے ۔ امید کی جاسکتی ہے کہ صدر پوٹن کے دورہ ہندوستان سے ہند ۔ روس باہمی تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوگا ۔