ونیش پھوگٹ ‘ اُمید سے مایوسی تک

   

شکست و فتح یاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
پیرس اولمپکس میں ہندوستان میں انتہائی درجہ کی مایوسی ہاتھ آئی ہے ۔ جہاںہندوستان کو 50 کیلوگرام ریسلنگ میں خاتون پہلوان ونیش پھوگٹ سے گولڈ میڈل کی امید تھی اچانک ہی ان کا وزن بڑھ گیا اور انہیںنا اہل قرار دیدیا گیا ۔ ونیش پھوگٹ کم از کم سلور میڈل جیت سکتی تھیںاور گولڈ میڈل کیلئے بھی وہ طاقتور دعویدار تھیں تاہم اچانک انہیں نا اہل قرار دیدیا گیا اور وہ کسی بھی میڈل کی حقدار نہیںہونگی ۔ جس طرح سے اچانک ہی حالات میں تبدیلی محسوس کی گئی وہ معمول کے مطابق ہرگز نہیں کہی جاسکتی ۔ ونیش پھوگٹ ویسے تو 53 کیلوگرام کے زمرہ میں مقابلہ کرتی تھیں تاہم انہوں نے خاص طور پر پیرس اولمپکس کیلئے اپنا وزن گھٹایا اور وہ 50 کیلوگرام زمرہ میں ہندوستان کیلئے میڈل جیتنے کا خواب رکھتی تھیں۔ ونیش پھوگٹ سے سارے ہندوستان کو امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں۔ انہوںنے فائنل کیلئے وزن کروانے سے قبل تک جو مقابلے جیتے تھے اس کے نتیجہ میں ان سے امیدیں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں ۔ ان کیلئے سلور میڈل تقریبا یقینی ہوگیا تھا اور گولڈ میڈل کی امید بڑھ گئی تھی ۔ اچانک ہی ایک رات میں ان کا وزن ایک کیلو گرام بڑھ گیا ۔ فائنل مقابلہ سے قبل جب ان کا وزن کروایا گیا تو اس میںاضافہ درج کیا گیا ۔ ان کے پاس وزن گھٹانے کیلئے آدھے گھنٹے کا وقت تھا تاہم اس وقت جب دوبارہ وزن کیا گیا تو معمولی سا فرق رہا یعنی ان کا وزن 50 سے 100 گرام زیادہ رہا اور انہیںنا اہل قرا ردیدیا گیا ۔ ونیش پھوگٹ کیلئے یہ انتہائی دلخراش واقعہ کہا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی اس کے نتیجہ میں سارے ہندوستان کیلئے مایوسی ہی ہاتھ آئی ہے ۔ ہندوستان بھر کو اس سال پیرس اولمپکس میں جن جن اتھیلیٹس سے میڈلس کی امیدیں رہی تھیں وہ پوری نہیں ہو پائی تھیں اور ایک مستحکم امید ونیش پھوگٹ سے وابستہ ہوگئی تھی تاہم اچانک ہی یہ امید ٹوٹ گئی اور انہیںنا اہل قرار دیدیا گیا ۔ یہ ہندوستان کیلئے افسوس کی بات ہے ۔ اس سے عالمی سطح پر بھی ہندوستان کی ایک طرح سے رسوائی کی بات ہے کیونکہ تمام متعلقہ افراد اور عہدیداروں کی نا اہلی اور ان کی لاپرواہی کا نتیجہ ہی کہی جاسکتی ہے ۔
کسی بھی ملک کیلئے اولمپکس کے کھیل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جو کھلاڑی اور اتھیلیٹس ہوتے ہیں وہ اس کیلئے کئی کئی ماہ بلکہ برسوںسے تیاری کرتے ہیں۔ اولمپکس میںاپنے ملک کیلئے میڈل جیتنا ہر ایک کیلئے قابل فخر کارنامہ ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے ملک کیلئے یہ کارنامہ انجام دینا چاہتا ہے ۔و نیش پھوگٹ نے بھی اس کیلئے کافی تیاری کی تھی ۔ ایسا نہیںہے کہ انہوں نے انفرادی طور پر تیاری کی تھی ۔ ہر اتھیلیٹ کے ساتھ متعلقہ حکام رہتے ہیں۔ ان کے کوچ اور مینیجر بھی رہتے ہیں۔ ہر کوئی تیاریوں میں اپنا اپنا رول ادا کرتا ہے ۔ جہاںاتھیلیٹس اپنے فن کو بہتر بنانے پر توجہ دیتے ہیں وہیںدوسرے امور پر کوچ اور مینیجر کی توجہ رہتی ہے ۔ان سب نے ونیش پھوگٹ کے معاملے میں یا تو لاپرواہی سے کام لیا ہے یا پھر ان کا تغافل رہا ہے جس کے نتیجہ میں آج سارے ملک کو افسوسناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی نے بھی اس معاملے پر متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ ونیش پھوگٹ کے معاملے کا جائزہ لیںاور اس کی تفصیلات حاصل کی جائیں۔ اب بہت کچھ کہا اور کیا جاسکتا ہے لیکن جو وقت گذر چکا ہے اس کو واپس نہیں لایا جاسکتا ۔ اب اگر اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے اور اسے قبول کر بھی لیا جائے تو جو خوشی اور جذبہ ابتداء سے موجود تھا وہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا ۔ خود ونیش پھوگٹ کیلئے یہ ایک ایسا مرحلہ کہا جاسکتا ہے جو وہ ساری زندگی فراموش نہیں کرپائیں گی اور ملک بھی اسے ہمیشہ یاد رکھے گا ۔
بات صرف ونیش پھوگٹ تک محدود نہیں ہے کیونکہ وہ ہندوستان کے 140 کروڑ عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے پیرس گئی تھیں۔ ان کی تیاریاںاپنے طور پر نہیں تھیں بلکہ ان کے ساتھ سارا انتظامیہ اس میںشریک تھا ۔ اگر ونیش پھوگٹ کے ہاتھ مایوسی آئی ہے تو اس کیلئے سارا انتظامیہ بھی ذمہ دار کہا جاسکتا ہے ۔ ہر ایک کو اپنے اپنے رول کا جواب دینا ہوگا ۔ میڈل کے قریب تک پہونچ کر نا اہل قرار پانے کی جو تکلیف ہوسکتی ہے وہ سوائے ونیش پھوگٹ کے کوئی اور محسوس نہیںکرسکتا ۔ اس سارے معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ ذمہ داروں کا تعین کیا جانا چاہئے اور مستقبل میں تدارک کو یقینی بنانا چاہئے ۔