ون نیشن ‘ ون الیکشن ‘ اتفاق رائے ضروری

   

کرکے نیلام اپنی اَنا آدمی
اپنے معیار سے گِر گیا آدمی
ون نیشن ‘ ون الیکشن کی تجویز کا جائزہ لینے کیلئے مرکزی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی اعلی سطح کی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے ۔ اس کمیٹی نے ون نیشن ‘ ون الیکشن کی سفارش کی ہے اور اس کمیٹی کی رپورٹ کو مرکزی کابینہ نے بھی فوری طور پر منظوری دیدی ہے ۔ یہ تجویز بی جے پی کی تیار کردہ ہے اور بی جے پی گذشتہ کچھ وقت سے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے ایک طرح سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ نریندرمودی حکومت کی دوسری معیاد کے دوران سابق صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کی قیادت میں اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ اس کمیٹی نے حکومت کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے ایک ملک ایک انتخاب کی سفارش کی ہے اور مرکزی کابینہ نے اسے منظوری دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی ۔ فوری طور پر اس تجویز کو کابینہ کی منظوری سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اس پر کس قدر تیزی کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت بلکہ بی جے پی کا منصوبہ یہی دکھائی دیتا ہیک ہ علاقائی جماعتوں کے وجود کو ہی ختم کردیا جائے ۔ بی جے پی نے مودی حکومت کی پہلی معیاد میں کانگریس مکت بھارت کے منصوبے کا اعلان کیا تھا ۔ کئی علاقائی جماعتوں نے بی جے پی کے اس نعرہ کی حمایت کرتے ہوئے اس کی تائید کی تھی ۔ بی جے پی چونکہ کہتی کچھ ہے اور کرتی کچھ ہے اسی لئے کانگریس مکت بھارت تو ممکن نہیں ہوسکا اور نہ ہی اس کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں تاہم بی جے پی اپنے اصل منصوبے اپوزیشن مکت بھارت کی سمت پیشرفت کرتی نظر آ رہی ہے ۔ ایک ملک ایک الیکشن کی تجویز کو اگر قانونی شکل دی جائے اور پارلیمنٹ کی منظوری حاصل ہوجائے تو پھر ملک میں علاقائی جماعتوں کا وجود خطرہ میں پڑ جائیگا ۔ کئی علاقائی جماعتیں ایسی ہیں جو ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں اپنی شاندار کارکردگی دکھاتی ہیں لیکن پارلیمانی انتخابات میں انہیں زیادہ کچھ کامیابی نہیں ملتی ۔ ایک ملک ۔ ایک الیکشن کی تجویز پر عمل کیا گیا تھا تو پارلیمنٹ و اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہونگے اور پھر قومی جماعتیں بی جے پی اور کانگریس میں ہی اصل مقابلہ رہے گا اور علاقائی جماعتوں کے انتخابی امکانات متاثر ہوجائیں گے ۔
ہندوستان ایک وفاقی طرز حکمرانی والا ملک ہے ۔ ریاستی حکومتیں بھی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں جبکہ مرکزی حکومت کا انتخاب بھی ملک کے عوام ہی کرتے ہیں۔ چونکہ دونوں سطح پر مسائل الگ ہوتے ہیں اس لئے ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔ تاہم بیک وقت انتخابات کی صورت میں عوام کے ذہنوں میں ایک مخصوص سوچ ڈالنے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ علاقائی مسائل کہیں پس منظر میں جاسکتے ہیں۔ ریاستوں میں عوامی مسائل پر توجہ نہیں کی جاسکے گی ۔ کثیر جماعتی طرز سیاست کو ایک ملک ۔ ایک انتخاب کی تجویز سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔ دو جماعتی نظام کو ملک میں تقویت مل سکتی ہے ۔ امریکہ ہو یا کچھ دوسرے بھی ممالک ہوں وہاں صرف دو جماعتوں کا وجود دکھائی دیتا ہے ۔ انتخابات میں عوام کے سامنے زیادہ مواقع دستیاب نہیں رہتے ۔ ہندوستان میں عوام کو ایک سے زیادہ اور کثیر مواقع اور امکانات دستیاب رہتے ہیں۔ وہ کافی غور و خوض کے بعد ان امکانات میں کسی کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ ملک میں آزادی کے بعد سے رائج طریقہ کار ہے ۔ گذشتہ تین دہوں میں ملک میں کئی علاقائی جماعتوں کا وجود سامنے آیا ہے جنہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں مجموعی صورتحال کو تبدیل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے ۔ ایسے میں علاقائی جماعتوں کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ اختیارات غیر مرکوز کرنے کا عمل بھی متاثر ہوسکتا ہے ۔ مرکز اور ریاست میں ایک ہی جماعت کی حکمرانی ہو تو پھر مرکزی احکام کی تعمیل ضروری ہوجائے گی ۔
موجودہ صورتحال میں اگر مرکز اور ریاست میں مختلف حکومتیں ہوں اور مرکز سے کوئی حکمنامہ جاری ہو تو سیاسی نقطہ نظر کے مطابق اس کی مخالفت کی جاسکتی ہے ۔ اپنی تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔ ترامیم کیلئے زور دیا جاسکتا ہے ۔ یا پھر ان احکام کو یکسر نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے ۔ اس سارے عمل کا مقصد عوام کی بہتری اور فلاح ہوسکتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محض ایک کمیٹی کی سفارش پر کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہندوستانی سیاست میں سرگرم تمام جماعتوں سے رائے لی جائے ۔ سب کو اعتماد میں لیا جائے ۔ تمام جماعتوں کی رائے کو مقدم رکھا جائے ۔ فرد واحد یا کسی ادارہ کے فیصلے کو سبھی پر مسلط کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔