ووٹرس سے مذاق

   

ملک بھر میں گذشتہ ایک دہے میںسیاسی جماعتوں سے انحراف کرنے اور اصل پارٹی ہونے کا دعوی کرنے اور الیکشن کمیشن سے اصل جماعت کا موقف حاصل کرلینے کا رجحان عام ہوگیا ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے بے شمار جماعتیں ایسی ہیں جن کی اپنی شناخت ختم ہوگئی ہے ۔ کئی جماعتوں میں بی جے پی کی جانب سے انحراف کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ان جماعتوں کو توڑ پھوڑ کا شکار کرتے ہوئے علیحدہ شدہ گروپس کو اصل جماعت کا موقف بھی دلا دیا گیا ۔ تازہ ترین معاملہ مہاراشٹرا میںشرد پوار کی زیر قیادت این سی پی کا ہے ۔ شرد پوار کی قائم کردہ این سی پی میں ان کے ہی بھانجے اجیت پوار نے پھوٹ ڈالی اور علیحدہ گروپ قائم کرتے ہوئے انہوں نے بی جے پی اور شیوسینا ایکناتھ شنڈے گروپ کے ساتھ مل کر مہاراشٹرا حکومت میں حصہ داری حاصل کرلی ۔ وہ مہاراشٹرا کے ڈپٹی چیف منسٹر بھی بن گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اجیت پوار کے منحرف گروپ کو اصل این سی پی قرار دے دیا گیا ۔ اسی طرح سے قبل ایکناتھ شنڈے کی قیادت والے شیوسینا کے منحرف گروپ کو اصل شیوسینا قرا دیدیا گیا ۔ ان معاملات کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا اور وہاں سماعت جاری ہے ۔ آج این سی پی کے مسئلہ پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارک کیا کہ سیاسی جماعتوںمیں انحراف کرتے ہوئے منحرف گروپ کو اصل جماعت قرار دینے کے رجحان کو روکا جانا چاہئے ۔ یہ ایک طرح سے ووٹرس کے ساتھ مذاق اور مضحکہ ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ ریمارک انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ملک میںیہ ایک روایت بن گئی ہے کہ ایک جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد سیاسی مفادات کی تکمیل اور عہدوں کے لالچ میںاسی جماعت میں انحراف کیا جاتا ہے اور منحرف گروپ ہی اصل جماعت قرار دیدیا جاتا ہے ۔ یہ روایت ملک کی جمہوری روایتوں کو کھوکھلا کر رہی ہے اور سیاسی جماعتوں کیلئے یہ ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے جن کے ذریعہ برسر اقتدار جماعت دوسری جماعتوں کا خاتمہ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہی ہے ۔ کئی جماعتیں اس کا شکار ہوگئی ہیں۔
بی جے پی کے مرکز میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے کئی جماعتوں کے ساتھ یہی کھیل کھیلا گیا ۔ بی جے پی نے مرکز میں اقتدار سنبھالتے ہی کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا ۔ اس نعرہ کے جھانسہ میں کئی علاقائی جماعتیںآگئیںجنہیں اپنی اپنی ریاستوں میں کانگریس سے مقابلہ درپیش تھا ۔ بی جے پی نے نعرہ تو کانگریس مکت بھارت کا دیا تھا لیکن کانگریس کا صفایا کرنے کے دعوی کی آڑ میںدر اصل علاقائی جماعتوں کا صفا یا شروع کردیا گیا ۔ کئی جماعتوں میں اس طرح کی بغاوت کروائی گئیں اور علاقائی جماعتوں کا وجود ہی خطرہ میںپڑ گیا تھا ۔ بی جے پی نے کئی ریاستوںمیں علاقائی جماعتوں سے اتحاد کیا ۔ وہاںاپنے قدم جمائے ۔ اپنی ہی حلیف جماعتوں میں انحراف کی حوصلہ افزائی کی ۔ اس کے عوامی نمائندوں کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیا اور خود اپنا اقتدار قائم کرلیا ۔ یہ اقتدار کی ہوس ہے جس کے لئے ملک میں ووٹرس کی رائے کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے ۔ بے شمار واقعات میںارکان اسمبلی اور ارکان پارلیمنٹ ایک جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد دوسری جماعتوں میںشامل ہو کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں جب ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا نے بی جے پی کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو شرد پوار نے حرکت میںآتے ہوئے سیاسی کھیل کھیلا اور شیوسینا ۔ این سی پی اور کانگریس پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دیتے ہوئے ادھو ٹھاکرے کو چیف منسٹر مہاراشٹرا بننے کا موقع فراہم کیا تھا ۔ بی جے پی کیلئے یہ ناقابل قبول تھا ۔
اسی وجہ سے بی جے پی نے در پردہ سیاسی کھیل کا آغاز کیا اور سب سے پہلے شیوسینا ہی میں پھوٹ کروادی ۔ ایکناتھ شنڈے کی قیادت میں کچھ ارکان اسمبلی کو انحراف کیلئے اکسایا ۔ ان کی تائید کرتے ہوئے ایکناتھ شنڈے کو مہاراشٹرا کا چیف منسٹر بنادیا ۔ ادھو ٹھاکرے وزارت اعلی سے محروم کردئے گئے ۔ کچھ ماہ بعد دوبارہ یہی کھیل کھیلا گیا اور شرد پوار کی این سی پی میںپھوٹ کرواتے ہوئے اجیت پوار کے ذریعہ بغاوت کروائی گئی اور انہیں مہاراشٹرا کا ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا گیا ۔ یہ ووٹرس کے ساتھ مذاق ہے اور سپریم کورٹ کے ریمارک کے بعد کم از کم بی جے پی اور دوسری جماعتوں کو اس سے گریز کرنے اور ملک میں جمہوریت کا مذاق بننے سے روکنے کی ضرورت ہے ۔