ووٹرس کو بھی دھمکیاں!

   

ہم تم ملے نہ تھے تو جدائی کا تھا ملال
اب یہ ملال ہے کہ تمنا نکل گئی
اکثر و بیشتر دیکھا جاتا ہے کہ سیاسی قائدین کم از کم انتخابات کے موسم میں عوام اور ووٹرس کی آو بھگت کرتے ہیں۔ ان کے آگے بچھ جاتے ہیں۔ ان کو رجھانے کیلئے کئی طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ ان کی ہر مانگ کو پورا کیا جاتا ہے اور ان سے من چاہے وعدے کرتے ہوئے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تاہم یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کچھ سیاسی قائدین رائے دہندوں کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں دھمکاتے بھی ہیں کہ ووٹ ان ہی کے حق میں استعمال کیا جائے ۔ رائے دہندوں کو دھمکانے کی روش بی جے پی کے قائدین اختیار کیا کرتے تھے ۔ وہ بزور طاقت بھی ووٹ حاصل کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔ کہیں مذہب کے نام پر رائے دہندوں کا استحصال کیا جاتا تو کہیں دوسرے طبقات کا خوف دلا کر ووٹ مانگے جاتے تھے ۔ انتخابات کے بعد ببانگ دہل یہ اعلان کیا جاتا تھا کہ مسلمانوں کے کوئی کام نہیں کروائے جائیں گے کیونکہ وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی روش کو اب اس کی حلیف جماعتیں بھی قبول کرنے لگی ہیں اور وہ بھی رائے دہندوں کو دھمکانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ اس بار تاہم کسی اور فرقہ یا مذہب کے نام پر استحصال نہیں کیا گیا بلکہ یہ انتباہ دیا گیا کہ صرف ان کی ہی پارٹی کو ووٹ دینا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ان علاقوں کی ترقی کیلئے فنڈز جاری نہیں کئے جائیں گے ۔ یہ دھمکی کسی مقامی لیڈر نے نہیں دی ہے بلکہ مہاراشٹرا کے ڈپٹی چیف منسٹر نے اس دھمکی آمیز زبان کا استعمال کیا ہے ۔ مہاراشٹرا کے ڈپٹی چیف منسٹر و این سی پی لیڈر اجیت پوار مجالس مقامی انتخابات کی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے مالیگاوں نگر پنچایت کے انتخابات کی مہم چلاتے ہوئے ووٹرس کو خبردار کیا کہ اگر ان کے پاس ووٹ ہیں تو میرے ( پوار کے ) پاس فنڈز ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کو ہی ووٹ دے کر کامیاب کیا جاتا ہے تب بھی وہ اس علاقہ کی ترقی کیلئے فنڈز جاری کریں گے بصورت دیگر فنڈز جاری نہیں کئے جائیں گے ۔ یہ ایک طرح سے اپنے عہدہ کا بیجا استعمال کرتے ہوئے رائے دہندوں کو بلیک میل کرنا ہے ۔
حکومتیں یا وزراء کو کوئی حق نہیں پہونچتا کہ وہ سیاسی فائدہ کیلئے سرکاری فنڈز کا بیجا استعمال کریں۔ سرکاری فنڈز کے نام پر ووٹ نہیں مانگا جاسکتا اور نہ ہی فنڈز روکنے کا انتباہ دیتے ہوئے ووٹرس کو بلیک میل کیا جاسکتا ہے ۔ یہ انتہائی افسوسناک روش ہے جو بی جے پی کے بعد اب اس کی حلیف جماعتیں بھی اختیار کرنے لگی ہیں۔ کسی بھی ریاست میں کوئی بھی حکومت ایسی نہیں ہوسکتی جس کو ریاست کے تمام ہی ووٹرس نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہو ۔ اپوزیشن کے امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جاتا ہے ۔ اپوزیشن کے ارکان کو بھی اسمبلی ‘ پارلیمنٹ یا پنچایتوں کیلئے منتخب کیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود کوئی بھی حکومت کسی بھی حلقہ کیلئے فنڈز روک نہیں سکتی ۔ اگر کسی حلقہ اسمبلی یا حلقہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے ارکان منتخب ہوئے ہیں تو ان کو ترقیاتی سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ سب عہدہ کا بیجا استعمال ہے ۔ رائے دہندوں کو بلیک میل کرنا ہے اور سرکاری فنڈز پر سیاست کرنا ہے جو انتہائی افسوسناک اور ناقابل قبول طرز عمل ہے ۔ حکومتیں یا ذمہ دار ڈپٹی چیف منسٹر اس طرح کا دھمکی آمیز رویہ ہرگز اختیار نہیں کرسکتے اور اگر ایسا کیا جا رہا تو ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہئے یا کم از کم ان کی سرزنش کرتے ہوئے بیان واپس لینے اور معذرت خواہی کرنے کیلئے مجبور کیا جانا چاہئے ۔ عوامی زندگی میں بلیک میل کی سیاست کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی اور یہ رویہ کسی ذمہ دار ڈپٹی چیف منسٹر کا نہیں بلکہ غیر سماجی عناصر کی طرح کا ہی کہا جاسکتا ہے ۔
جن رائے دہندوں اور عوامی ارکان کے سامنے یہ دھمکی آمیز اور بلیک میل کرنے والا بیان دیا ہے ان کو خود بھی اس دھمکی کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں ایسی دھمکیاں دینے اور بلیک میل کرنے والوں کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اس حقیقت کو جان لینا چاہئے کہ کسی بھی حلقہ یا علاقہ کا ترقیاتی فنڈز روکنے کا کسی وزیر کو حق یا اختیار نہیں ہے اور عوام اپنی ووٹ کی طاقت سے ایسی دھمکیاں دینے والوں کا رویہ اور سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور ان کو یہ سبق سکھایا جانا چاہئے کہ عوام سیاسی قائدین کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ سیاسی قائدین عوام کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔