ووٹر لسٹ پر نظرثانی ‘ مقاصد و اندیشے

   

بہار میں ووٹر لسٹ پر نظرثانی کی کارروائی نے ایک تنازعہ پیدا کردیا ہے ۔ ویسے تو فی الحال یہ شروعات صرف بہار میں ہوئی ہے تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کئی ایسی ریاستوں میں ووٹر لسٹ پر نظرثانی کی جائے گی جہاں اپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ خاص طور پر مغربی بنگال ‘ جھارکھنڈ اور ٹاملناڈو میں بہار کے بعد یہ کارروائی شروع کرنے کے اشارے دئے جا رہے ہیں ۔ جس طرح سے ووٹر لسٹ پر نظرثانی کا کام شروع کیا گیا ہے اس کی وجہ سے کئی اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت الیکشن کمیشن کو استعمال کرتے ہوئے خفیہ دروازے سے این آر سی پر عمل آوری کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ بہار میں خاص طور پر یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ بہار میں پسماندہ طبقات ‘ اقلیتوں اور دوسرے کمزور طبقات کے ہزاروں ناموں کو ووٹر لسٹ سے حذف کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ اندیشے اس لئے بھی زیادہ تقویت پانے لگے ہیں کہ بہار میں ووٹر لسٹ پر نظرثانی کیلئے جو طریقہ کار وہ پہلے کبھی اختیار نہیں کیا گیا تھا ۔ یہ شبہات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ایسے بے شمار نام ووٹر لسٹ سے غائب کردئے جائیں گے جن کے تعلق سے یہ امکان ہو کہ وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دینگے یا جے ڈی یو کیلئے اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کریں گے ۔ اپوزیشن جماعتوں کا تو یہاں تک الزام ہے کہ ووٹر لسٹ پر نظرثانی کے کام کے ذریعہ بہار کی تقریبا نصف آبادی کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا جائے گا اور ان کے ووٹنگ کے حقوق چھین لئے جائیں گے ۔ پھر ان کی شہریت پر سوال پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ حکومت بہار میں الیکشن کمیشن کو استعمال کرتے ہوئے خفیہ درواز ے سے این آر سی پر عمل کرنا چاہتی ہے ۔ کئی گوشوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کرتے ہوئے اس عمل کو روکنے کی استدعا کی گئی ہے تو کسی نے اس عمل کی تائید میں بھی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے ۔ اس سے بھی شبہات کو تقویت ملنے لگی ہے کیونکہ اس کی تائید میں عدالت میں پیش ہونے والوں کے سیاسی مقاصد و مفادات بھی ضرور ہوسکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار میں فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کے دوران ناموں کے اندراج کیلئے جو دستاویزات طلب کئے گئے ہیں ان کی تعداد 11 بتائی گئی ہے ۔ ان میں 5 دستاویزات ایسے ہیں جن سے ووٹر کی تاریخ پیدائش اور مقام پیدائش کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حیرت اور افسوس اس بات کا ہے کہ ناموں کے اندراج کیلئے جو دستاویزات طلب کئے گئے ہیں ان میں آدھار کارڈ وغیرہ بھی شامل نہیں ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کی ہر اسکیم اور ہر سرکاری کام کیلئے آدھار کارڈ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ نہ لائسنس آدھار کے بغیر بن پاتا ہے اور نہ ہی پاسپورٹ کی اجرائی آدھار کارڈ کے بغیر ممکن رہ گئی ہے ۔ گیس کنکن ہو یا پھر بینک اکاؤنٹ ہو کوئی بھی کام آدھار کارڈ کے بغیر ممکن نہیں ہے اور الیکشن کمیشن نے بہار میں جاری فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کیلئے آدھار کارڈ طلب نہیں کیا ہے ۔ اگر آدھار کارڈ کو تاریخ پیدائش اور مقام پیدائش کے ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جارہا ہے یا اس کی ضرورت نہیں ہے تو پھر دوسرے کن دستاویزات پر انحصار کیا جائیگا ۔ الیکشن کمیشن کو کسی کی شہریت پر سوال کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ اس کیلئے دوسرے ادارے موجود ہیں اور دوسرے ذمہ دار گوشوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو دستاویزات طلب کئے گئے ہیں اور جن کو نظرانداز کیا گیا ہے ان کے نتیجہ میں بھی شبہات کو تقویت مل رہی ہے اور کمیشن کی جانب سے اس پر کوئی وضاحت بھی نہیں کی جا رہی ہے ۔
الیکشن کمیشن کا کام اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی اہل فرد فہرست رائے دہندگان میں اپنے نام کی شمولیت سے محروم نہ رہے اور کسی غیر مجاز شخص کو اس فہرست میں شامل نہ کیا جائے ۔ ملک کی کئی ریاستوں میں ایسی فہرست رائے دہندگان موجود ہے جس میں ایک فرد کے ایک سے زائد مقامات پر ووٹ موجود ہیں۔ اس کا ثبوت بھی دستیاب ہے اس کے باوجود ان ناموں کو حذف کرنے پر توجہ کرنے کی بجائے حقیقی رائے دہندوں کو محروم کرنے کی کوششیں قابل تشویش ہیں۔ جو شبہات اور اندیشے پیدا ہوگئے ہیں وہ ملک کی جمہوریت سے متلق ہیں اور اس پر الیکشن کمیشن کو تفصیلی اور موـثر وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ۔