ووٹنگ مشینوں پر شبہات و اندیشے

   

قدر اب تک تری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں
ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہمیشہ سے شکوک و شبہات کے گھیرے میں رہے ہیں۔ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں نے ووٹنگ مشینوں کے تعلق سے اندیشوں کا اظہار بھی کیا ہے ۔ کچھ گوشوں کا ماننا ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کیا جاسکتا ہے اور ان کو ہیک بھی کرنا ممکن ہے ۔ کچھ گوشوں نے اس کا لائیو مظاہرہ بھی سوشیل میڈیا پر پیش کیا ہے ۔ تاہم الیکشن کمیشن کا جہاں تک سوال ہے کمیشن نے ہمیشہ ہی ان تمام شبہات اور اندیشوں کو مسترد کردیا ہے ۔ ملک میں برسر اقتداربی جے پی نے بھی اس طرح کے الزامات کو مسترد کیا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وقفہ وقفہ سے اس مسئلہ پر اپنے اندیشوں اور شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک تفصیلی توجہ طلب مسئلہ ہے ۔ اس پر اپوزیشن جماعتوںکو لگاتار کا م کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب تازہ ترین صورتحال میں ٹیسلا کے سربراہ ایلان مسک نے بھی مبینہ طور پر اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کی جاسکتی ہے ۔ملک میں حالیہ لوک سبھا انتخابات سے قبل بھی ان مشینوں کے تعلق سے شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا ۔ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد سے اس مسئلہ پر رائے زنی میں قدرے کمی آئی ہے ۔ جب سے ایلان مسک نے اس پر اظہار خیال کیا ہے پھر یہ مسئلہ توجہ حاصل کرنے لگا ہے ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے بھی اس پر بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ اس مسئلہ پر الیکشن کمیشن کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ الیکشن کمیشن ہو یا مرکزی حکومت ہو یا پھر اپوزیشن جماعتیں ہوں سبھی کو اس مسئلہ پر توجہ کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ملک کی جمہوریت اور عوام کے حق رائے ہی کا مسئلہ ہے ۔ اگر اس میں معمولی سا بھی کوئی شک و شبہ رہ جاتا ہے تو یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیلئے ایک سوالیہ نشان ہی کہا جائیگا ۔ اس پر قطعیت کے ساتھ کسی رائے پر پہونچنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اس کو دور کیا جانا چاہئے اور اگر کوئی مسئلہ نہیںہے تو اس پر ہمیشہ کیلئے رائے زنی کو روکا جانا چاہئے ۔ یہ محض سیاسی نہیں بلکہ ملک کی جمہوریت سے تعلق رکھنے والا مسئلہ ہے ۔
جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا سوال ہے تو زیادہ ذمہ داری ان کی بنتی ہے کہ اس مسئلہ کی جامع اور منظم انداز میں پیروی کریں۔ جہاںکہیںقانونی مدد لی جاسکتی ہے وہ لی جائے ۔ جو راستہ ملک کے قانون اور دستور کے دائرہ میںرہتے ہوئے اختیار کرنا ضروری ہو وہ راستہ اختیار کیا جائے اور پھر اس مسئلہ کو منطقی انجام تک پہونچایا جائے ۔ اگر کسی الیکشن میں اپوزیشن کو کامیابی مل جائے یا پہھر بی جے پی کا نقصان ہوجائے تو اس پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے طمانیت محسوس کرنا درست نہیں ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو نقصان ہوا ہے اور اپوزیشن کی عوامی تائید اور مقبولیت میںاضافہ ہوا ہے ۔ ایسے میں اگر اپوزیشن جماعتیںخاموشی اختیار کرلیتی ہیں تو پھر وقفہ وقفہ سے اس پر بحث کرنے کی کوئی گنجائش نہیںرہنی چاہئے ۔ ہر کسی کو ملک کی جمہوریت اور اس کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں وقفہ وقفہ سے ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہوتے رہتے ہیں اور پھر لوک سبھا انتخابات اپنے وقت پر منعقد ہوتے ہیں۔ اگر محض انتخابات سے قبل یا پھر بعد میں اظہار خیال کیا جاتا رہا تو اس کو محض سیاسی مخالفت یا تائید سمجھا جائیگا ۔ جمہوریت کی اہمیت اور افادیت کو برقرار رکھنے کیلئے ہر طبقہ کو اپنی اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے اور جب تک سنجیدگی سے کام نہیں کیا جائیگا اس انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس ترین مسئلہ کی یکسوئی قطعیت کے ساتھ ممکن نہیں ہے ۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین جس وقت سے ہندوستان میں رائج ہوئے ہیںاسی وقت سے ان کی کارکردگی کے تعلق سے شبہات پیدا ہوئے تھے ۔ خود بی جے پی جس وقت اپوزیشن میں تھی اس وقت خود بی جے پی کے سینئر قائدین نے بھی اس پر شبہات ظاہر کئے تھے ۔ اب بی جے پی اقتدار میں ہے تو اسے ان مشینوں کی کارکردگی پر کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے ۔ اپوزیشن کو اب شہبات لاحق ہیں ۔ ایسے میں اپوزیشن ہو یا پھر برسر اقتدار جماعت ہو کسی کو بھی وقتی طور پر کوئی موقف اختیار کرنے کی بجائے اس مسئلہ کو منطقی انجام تک پہونچانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے عوام کا بھی اعتماد اس پر بحال ہوسکے ۔