ووٹ چوری کا الزام اور الیکشن کمیشن

   

اک عمر نہ کر پائیں جس کام کو فرزانے
اک کھیل سمجھتے ہیں اس کو ترے دیوانے
ہندوستان میں ووٹ چوری کے الزامات اب ایک بڑا تنازعہ بنتے جا رہے ہیں اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ بہت بڑی دھاندلی کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا گیا ہے ۔ اقتدار پر فائز ہونے والوںکو محروم کردیا گیا ہے اور جنہیں عوامی تائید نہیں ملی وہ عوامی تائید کا ڈھونگ کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ قائد اپوزیشن راہول گاندھی کی جانب سے ووٹ چوری کا الزام عائد کرتے ہوئے باضابطہ ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی ۔ تمام ثبوت اور شواہد پیش کئے گئے ۔ پاور پوائنٹ پریزنٹیشن دیا گیا ۔ یہ الزام عائد کیا کہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ووٹرس کا نام فرضی طریقہ سے ووٹر لسٹ میں شامل کرتے ہوئے بی جے پی کی مدد کی گئی ہے ۔ یہ الزام اب ایک محض الزام تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ یہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کرنے لگا ہے ۔ دھیرے دھیرے لوگ اس تعلق سے شبہات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ محض راہول گاندھی کو نشانہ بنانے کیلئے سابق مرکزی وزیر و بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر نے بھی یہ ادعا کردیا کہ چھ لوک سبھا حلقوں میں فرضی ووٹرس ہیں۔ ان الزامات کے دوران الیکشن کمیشن سے مطالبہ ہو رہا تھا کہ وہ ان کی تحقیقات کرے ۔ الیکشن کمیشن ایسا لگتا ہے کہ تحقیقات کرنے کی بجائے سیاسی طریقہ کار اختیار کر رہا ہے ۔ سیاسی جماعت کی طرح کا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ان الزامات پر چیف الیکشن کمشنر نے آج ایک پریس کانفرنس کی اور انہوں نے راہول گاندھی کے الزامات کا موثر جواب دینے کی بجائے بات کو الجھانے کی کوشش کی اور وہ باتیں کہنے لگے جو اکثر ٹی وی پر ہونے والے مباحث میں بی جے پی کے ترجمان کیا کرتے تھے ۔ بات کچھ ہوتی ہے اور اسے کہیں اور موڑ دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح سے چیف الیکشن کمشنر نے راہول گاندھی کے الزامات پر واضح جواب دینے کی بجائے ملک کے دوسرے ووٹرس کا سہارا لینے کی کوشش کی ہے اور یہ سوال کیا کہ آیا الزام عائد کرنے والے ملک کے ووٹرس کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ۔ یہی وہ طریقہ کار ہے جو بی جے پی ٹی وی مباحث میں اختیار کرتی ہے ۔
حالانکہ چیف الیکشن کمشنر نے اپنی پریس کانفرنس میں راہول گاندھی کا نام نہیں لیا ہے لیکن ان کا سارا غصہ راہول گاندھی پر ہی اترتا دکھائی دیا ہے ۔ راہول گاندھی کی جہاں تک بات ہے تو انہوں نے صرف ایک اسمبلی حلقہ کا ڈیٹا پیش کیا تھا اور اپنے دعوے کئے تھے ۔ اس کیلئے انہوں نے تمام تفصیلات بھی پیش کی تھیں۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر نے چھ لوک سبھا حلقوں میں فرضی ووٹرس ہونے کا الزام عائد کیا تھا ۔ چیف الیکشن کمشنر ان کا کہیں بھی حوالہ دیتے نظر نہیں آئے حالانکہ انہوں نے بھی ہزاروں فرضی ووٹر موجود ہونے کا الزام عائد کیا تھا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہی الیکشن کمشنر سارے ملک کی توجہ اصل اور بنیادی مسئلہ سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ راہول گاندھی سے حلفنامہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن اسی طرح کا دعوی کرنے والے انوراگ ٹھاکر سے اب تک کوئی حلفنامہ طلب نہیں کیا گیا ہے ۔ راہول گاندھی کو ڈیٹا دینے سے انکار کیا جا رہا ہے جبکہ یہ وضاحت نہیں کی جا رہی ہے کہ انوراگ ٹھاکر کے پاس یہ ڈیٹا کس طرح سے پہونچ گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی آج کی پریس کانفرنس نے اس کے موقف کو اور بھی کمزور کردیا ہے کیونکہ ملک کے عوام امید کر رہے تھے کہ الزامات کا جواب دیا جائے گا لیکن کمیشن نے مسئلہ کا رخ بدلنے کی کوشش کی ہے اور خود بری الذمہ ہونے کیلئے ایسا راستہ اختیار کیا ہے جو بی جے پی کا اختیار کردہ رویہ ہے ۔ اس کی الیکشن کمیشن سے امید نہیں تھی ۔
ملک کے کئی ماہرین اور الیکشن کمیشن ہی میں ماضی میں کام کرچکے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی سے جو حلفنامہ طلب کیا جا رہا ہے اس کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ راہول گاندھی رکن پارلیمنٹ ہیں۔ قائد اپوزیشن ہیں۔ وہ اپنے عہدوں کا پہلے ہی حلف لے چکے ہیں۔ وہ بحیثیت قائد اپوزیشن الزامات عائد کر رہے ہیں تو ان کی جامع اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانا الیکشن کمیشن کا فریضہ ہے ۔ کمیشن اس کو پورا کرنے کی بجائے سیاسی کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ کمیشن کو سیاست کرنے کی بجائے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر ہی اپنی ساری توجہ مرکوز کرنی چاہئے ۔