سورج کی روشنی اور دھوپ کے بعد وٹامن ڈی کا سب سے بڑا قدرتی ماخذ سمندری غذائیں ہیں جن میں مچھلی سر فہرست ہے۔ ساروڈین مچھلی، سرمئی مچھلی، کستورا مچھلی اور چربی والی مچھلیوں میں وٹامن ڈی کی مقدار قدرتی طور پر بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ مشرومز (کھمبیاں) میں بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کی بہت زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ دیسی غذاؤں میں دیسی انڈے کی زردی بھی قدرتی طور پر وٹامن ڈی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ انڈا ابال کر یاکچا دودھ میں حل کرکے پینے سے یہ مقدار اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ روز مرہ غذاؤں گائے اور بکری کاخالص دودھ، دہی، مکھن، دیسی گھی،پنیر،خوبانی،پستہ، پپیتہ ، گاجر، پالک، مولی، بند گوبھی، ٹماٹر، گندم اور جوکا دلیہ، اورنج، سویابین، مغز بادام، اناج اور ساگ وغیرہ میں وٹامن ڈی قدرتی طور پر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔گاجر، مولی، پالک، ساگ اور سنگترہ کا سیزن ہونے کی وجہ سے رواں موسم خداکا عطیہ ہے۔ گاجر کے حلوے میں مغز بادام ،کھویا اور مغز پستہ شامل کرکے لذت اور صحت ایک ساتھ لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے ۔ گاجر کا جوس بنا کر پینا بھی بے حد مفید سمجھا جاتا ہے۔ طبی ماہرین گاجرکو سیب کے متبادل کے طور بھی پیش کرتے ہیں، کیونکہ گاجر سیب کی نسبت سستا ہوتا ہے۔گاجر کو کچا بطورسلاد بھی عام استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مولی اور بند گوبھی پکاکر بھی کھائی جاتی ہے اور بطورسلاد کچی بھی وافر مقدار میں کھائی جا سکتی ہیں۔ ٹماٹر ہر سبزی میں شامل کیا جا سکتا ہے اور بطور سلاد کچا بھی کھایا جاسکتا ہے۔سردی کا موسم ساگ کے بغیر ویسے ہی ادھورا ادھورا سا محسوس ہوتا ہے۔آج کل مکئی اور باجرے کی روٹی کے ساتھ ساگ اور مکھن کاا ستعمال اپنا ایک منفرد مزا اور پہچان رکھتا ہے۔ پالک بھی ساگ کا لازمی جز ہے تاہم پالک ہم گوشت، آلو، مولی، شلجم اور دال چنا کے ساتھ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ پالک میں کیلشیم اور وٹامن ڈی کی مقداریں قدرتی طور پر بہت زیادہ پائی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ سمجھدار معالجین ہڈیوں کے بھربھرے پن (آرتھو پراسس) کے مریضوں کو پالک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ وٹامن ڈی کی کمی کا سب سے بڑا سبب پراسیسڈ فوڈز ، فاسٹ فوڈز، فارمولا دودھ، کولا مشروبات ، بیکری مصنوعات، میدے سے بنی اشیاء ، کیمیکلز بیسڈ خوراک، دھوپ میں زیادہ وقت نہ گزارنا،بند اور تنگ جگہوں پر رہائش رکھنا،غیر معیاری، ملاوٹ سے بھرپور غذائیں ، غیر فطری طرز رہن سہن اور حفظان صحت کے اصولوںسے روگردانی بن رہا ہے۔ہم آج بھی اپنی خوراک ، طرز بودو باش اور روزمرہ معمولات کو فطری اصولوں کے مطابق کرکے اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ایک تندرست وتوانا اور بھرپور زندگی سے لطف اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔(آخری قسط)