ویکسین کی اجازت دینے پر غیر یقینی صورتحال

   

کرن تھاپر
ہمیں صرف ایک وضاحت کی ضرورت ہے تاکہ تنازعہ کا خاتمہ کیا جاسکے جب ہم نے سادہ اور بے باک جواب طلب کیا تو ہمیں الجھن انگیز اور متضاد ردعمل حاصل ہوئے، نتیجہ یہ کہ کووڈ ۔ 19 سے نمٹنے کے لئے دو ویکسین کی منظوری جشن منانے کا سبب بننے کی بجائے کئی افراد میں شکوک و شبہات اور اعتراضات پیدا ہوئے جس کی وجہ سے تازہ فکرمندی پیدا ہوئی۔
صورتحال کا اچھی طرح اندازہ لگانے کے لئے آپ پروفیسر گگن دیپ کانگ کا بیان پڑسکتے ہیں۔ ان کے خیال میں جو ہندوستان کی ایک اعلیٰ سطحی ویکسین سائنسداں ہیں برطانیہ کی باوقار رائل سوسائٹی کی رکن ہیں اور ہمارے اپنے مشہور انفورسیز پرائز یافتہ شخصیت ہیں، یہ ہے کہ حکومت کے دو اعلیٰ سطحی ڈاکٹرس بلرام بھارگو اور ونود پال اس سے متفق نہیں ہے لیکن ان کی رائے بالکل واضح اور مثالی ہے۔ اس رائے سے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر بھارگو کو ویکسین پراجکٹ کا ایک حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ڈاکٹر کانگ کی رائے ملاحظہ کرسکتے ہیں اس سے قبل کہ آپ اپنی کوئی رائے قائم کرلیں۔ ڈاکٹر کانگ کو ویکسین کے ہنگامی استعمال پر سخت اعتراض ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایبولا اور نپاہ ویکیسنس کی مثال پیش نظر کیوں نہیں رکھی گئی اور تیسرے مرحلہ کی آزمائشوں کے بغیر اور کارآمد ہونے کے بارے میں معلومات حاصل کئے بغیر اور اس حقیقت کے باوجود کہ ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی اور دیگر ویکیسن منظر عام پر آگئے تھے۔ ہنگامی صورتحال میں استعمال کرنے کی کو ویکسین کو کیوں اجازت دی گئی۔ وہ سوال کرتی ہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا؟

حقیقت یہ ہے کہ 2019 میں طبی آزمائش کے قواعد کے مطابق ایسا نہیں کیا گیا جس پر کانگ کو اعتراض ہے۔ فقرہ 2(A)(d) کے مطابق جو ’’نئی دوا کے بارے میں تحقیقات‘‘ سے متعلق ہے۔ کیا ویکسین کی اجازت دینے کے لئے بھی منطبق ہوتا ہے۔ انہیں اس بات پر یقین نہیں ہے کہ یہ ویکسین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’دوا ایک علاج ہے جبکہ ویکسین ایک انسدادی اقدام ہے۔ صرف بیماروں کو دوائیں دی جاتی ہیں جبکہ ویکسینس صحتمند افراد کو دی جاتی ہیں‘‘۔ کانگ بھارگو اور پال کی جانب سے کو ویکیسن کی اجازت دینے کا دفاع کرنے پر بھی اعتراض کرتی ہیں۔ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ کو ویکسین نے تیسرے مرحلہ کی آزمائشوں کی تکمیل نہیں کی، چنانچہ اس کے کارآمد ہونے کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ بھارگو کا کہنا ہے کہ ویکسین کے کارآمد ہونے کے بارے میں جانوروں پر اس کی آزمائش اور پہلے اور دوسرے مرحلہ کی آزمائشوں کو پیش نظر رکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر کانگ اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جانوروں پر آزمائشی اقدامات کی امریکہ میں اجازت دی گئی ہے اور ان آزمائشوں کے کامیاب ہونے کے بعد ہی دواؤں کے استعمال کی منظوری دی جاتی ہے لیکن صرف اسی وقت جبکہ جانوروں میں بھی انسانی بیماری کے مماثل بیماری مناسب انداز میں پیدا کی جاسکے۔ اب تک کووڈ ۔ 19 کے لئے ایسا نہیں ہوا ہے، جہاں تک کو ویکسین کی مرحلہ اول اور دوم کی آزمائشیں ہیں ان میں صرف 800 نے شرکت کی تھی جو قابل اعتماد کارآمد ہونے کی معلومات کے لئے بہت کم تعدادہے۔
کانگ بھارگو کے اس دعوے پر بھی شک ظاہر کرتی ہیں کہ کو ویکسین کے استعمال کی منظوری اس لئے دی گئی تھی کہ وہ وائرس کی نئی تبدیل شدہ شکل سے نمٹنے میں بھی فائدہ مند رہے اور معلومات اس کو ثابت کرچکے ہیں۔ کانگ کا کہنا ہے کہ ’’فی الحال ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے‘‘ بھارگو اور پال کا دعویٰ صرف ایک ’’مفروضہ‘‘ ہے۔ کانگ کا کہنا ہے کہ ’’ان کی الجھن درحقیقت برقرار ہے‘‘ کو ویکسین کو طبی آزمائش کے مقررہ طریقہ کار کے مطابق اجازت نہیں دی گئی اس کے نتیجہ میں طبی آزمائشوں کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ بے شک ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ اس کا ارادہ کریں اور کوئی اس کے لئے آگے آئے۔ اس طریقہ کار سے اس بات کا تیقن تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اجازت بالکل جائز ہے۔

آخر کار اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا وہ کو ویکسین لینے کے لئے تیار ہیں۔ کانگ نے کہا کہ وہ کسی بھی ویکسین کی طبی آزمائش میں شرکت کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ یہ سائنس کو ان کی شخصی دین ہوگی۔ وہ تیسرے مرحلہ کی آزمائشوں کے مکمل ہونے تک کوویکسین نہیں لیں گی اور ضروری کارکردگی کی معلومات سے عوام کو واقف کروانا چاہئے۔

اب ڈاکٹر کانگ کے نظریات سے حکومت متفق نہیں ہے یقینا وہ سابق ٹوئٹر، نامور وائرالوجسٹ ٹی جیکب جان کی توثیق کرتی ہیں جو انہوں نے ظاہر کی ہے لیکن دیگر کئی اسی انداز کی باتیں کہہ چکے ہیں۔ ان میں نامور وائرالوجسٹ شاہد جمیل ڈین کے ای ایم ہاسپٹل ہیمنت دیشمکھ اور آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک شامل ہیں۔ تاہم بیشتر دیگر افراد نے پرشور انداز میں اپنی رائے دی ہے اب وہ اپنا موقف واضح کرتی ہیں کیا ہم صرف اس سے فائدہ حاصل کرسکیں گے، بے شک یہ استعمال ہونا شروع ہوچکی ہے اور ہمیں اس سے اتفاق کرنا پڑے گا یا عدم اتفاق کرنا پڑے گا۔ ماہرین نہ ہونے کی وجہ سے ہم کوئی قطعی رائے ظاہر نہیں کرسکتے لیکن ان کے نظریات صرف مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے آپ کے لئے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔