ُبہار انتخابات اور گودی میڈیا

   

سفر لمبا بھی ہے اور مختصر بھی
مسافر ہے کہ چلتا جارہا ہے
بہار میں اسمبلی انتخابات کیلئے سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور اتحادوں کی جانب سے نشستوں کی تقسیم پر تقریبا مفاہمت ہوچکی ہے اور اب امیدواروں کے انتحاب کا عمل جاری ہے ۔ کچھ جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے ناموں کو بھی قطعیت دی جاچکی ہے اور کچھ نے فہرست کا اجراء بھی عمل میں لادیا ہے ۔ کچھ جماعتوں کی جانب سے ابھی امیدواروں کے ناموں پر غور و خوض کا سلسلہ جاری ہے اور بہت جلد اجمیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا جائے گا ۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابی مہم کے حصے کے طور پر ابھی راست عوام سے رجوع ہونا شروع نہیں ہوئی ہیں لیکن گودی میڈیا کے اداروں کی جانب سے ابھی سے چاپلوسی اور گمراہ کن تشہیری مہم کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ جہاں ہر معاملے میں اپوزیشن جماعتوں اور اتحاد کو منفی انداز میں پیش کرنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں وہیں حکومت کے اور برسر اقتدار اتحاد کے ہر فیصلے کو انتہائی ستائشی انداز میں عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ گودی میڈیا اور ان کے اداروں کی جانب سے جس طرح ہمیشہ ہی حکومت کے تلوے چاٹنے کی حکمت عملی پرع مل کیا جاتا ہے اور حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے یا ترقیاتی مسائل پر مباحث کرنے کی بجائے ہند ۔ مسلم کا راگ الاپا جاتا ہے اور بے بنیاد مسائل پر لمبے چوڑے مباحث کرتے ہوئے ملک کے ماحول کو پراگندہ کیا جاتا ہے وہیں اب بہار کے اسمبلی انتخابات کے دوران گودی میڈیا کی جانب سے حکومت اور برسر اقتدار اتحاد کی مدح سرائی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور کئی زرخرید تلوے چاٹو اینکرس کی جانب سے حکومت کی چاپلوسی میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں ۔ گذشتہ دو دہوں میں نتیش کمار حکومت کی کارکردگی پر کسی بھی چینل یا دیگر ادارہ سے کوئی مباحث نہیں کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی کوئی رپورٹس شائع کی جا رہی ہیں ۔ صرف اپوزیشن کو نشانہ بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے اور اس کی جانب سے کئے جانے والے انتخابی وعدوں پر ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے سوال کئے جا رہے ہیں۔
بی جے پی کی جانب سے جہاںاپنے امیدواروں کا اعلان کیا گیا ہے تو اس میں کس ذات کو کتنی نمائندگی دی گئی ہے اور بہار میں کس ذات کی کتنی آبادی ہے اس پر تبصرے شروع کردئے گئے ہیں۔ اس طرح پہلے ہی سے گنجلک ماحول کو مزید ذات پات کے امور میں الجھانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔ یہ سوال کوئی نہیں اٹھا رہا ہے کہ بہار میں تقریبا 18 فیصد مسلم آبادی رہنے کے باوجود بی جے پی کی جانب سے کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ دینے والی بی جے پی سے کوئی یہ سوال نہیں کر رہا ہے کہ جہاں ہر برادری اور طبقہ کو نمائندگی دینے کی کوشش کی گئی ہے تو وہیں مسلمانوں کو پوری طرح سے نظرانداز کیوں کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو کی جانب سے بہار کے ہر گھر میں ایک سرکاری نوکری دینے کے اعلان پر مضحکہ خیز انداز میں تبصرے کئے جا رہے ہیں اور اس اعلان کو مذاق کا موضوع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ میڈیا کی ذمہ داری ان اعلانات کے قابل عمل ہونے پر سوال کھڑا کرنے سے زیادہ جو اعلانات پہلے کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا گیا تھا ان کی عدم تکمیل کا مسئلہ اٹھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن گودی میڈیا اپنی اصل ذمہ داریوں کو فراموش کرتے ہوئے چاپلوسی میں مصروف ہوگیا ہے ۔ کسی میڈیا ادارے نے اب تک یہ سوال نہیں کیا کہ نریندر مودی نے سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ کس بنیاد پر کیا تھا اور اب تک کیوں انہوں نے اس وعدہ کو پورا نہیں کیا گیا ۔ اب تک ملک میں کتنے روزگار دئے گئے ؟ ۔
دو دہے قبل کے لالو پرساد یادو کے دور اقتدار کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے میں میڈیا کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہا ہے لیکن گذشتہ دو دہوں سے اقتدار میں رہتے ہوئے کئی محاذوں پر ناکام ہوجانے والے نتیش کمار اور اس کی اقتدار کی شریک بی جے پی سے کوئی سوال نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ہر طرح سے رائے دہندوں کے ذہنوں پر ایک سوچ کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے ۔ بہار کے عوام کو ایسی سازشوں کے خلاف چوکس رہنے اور ماضی کے تجربات و مستقبل کی امیدوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہئے ۔