ٹاملناڈو میں 97 لاکھ ووٹوں کی کٹوتی

   

Ferty9 Clinic

ملک کی مختلف ریاستوں میں ایس آئی آر کا عمل کیا گیا ہے ۔ اس عمل کی شروعات بہار سے ہوئی تھی اور بعد میں 12 ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں اس کو وسعت دی گئی ۔ کچھ ریاستوں میں اس کی مہلت میں اضافہ کیا گیا تاہم بیشتر ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں اسے مکمل کردیا گیا ۔ جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو میں ایس آئی آرکا عمل مکمل ہوچکا ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے فہرست رائے دہندگان کا مسودہ جاری کردیا گیا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ٹاملناڈو جیسی ریاست میں 97 لاکھ 30 ہزار ووٹ خارج کردئے گئے ہیں ۔ یہ ٹاملناڈو کی فہرست رائے دہندگان کا 15 فیصد حصہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ اس سے زیادہ حیرتک ی بات یہ ہے کہ صرف واحد شہر چینائی میں 14 لاکھ 25 ہزار ووٹ حذف کردئے گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ شہر کی ووٹر لسٹ کا ایک بڑا حصہ ہے جسے حذف کردیا گیا ۔ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ لاکھوں افراد یا تو دوسرے شہروں یا ریاستوں کو منتقل ہوگئے ہیں یا ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے نام ووٹر لسٹ سے حذف کردئے گئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صرف ایک ریاست میں تقریبا ایک کروڑ نام اگر فہرست رائے دہندگان سے خارج کئے جا رہے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اور اس کی تفصیلات کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف ٹاملناڈو ہی نہیں بلکہ سارے ملک کے عوام کے سامنے اس کی تفصیل پیش کی جانی چاہئے ۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے اور اتنی کثیر تعداد میں ووٹوں کے حذف کئے جانے کے نتیجہ میں کسی بھی ریاست میں اقتدار کی اونچ نیچ ممکن ہوسکتی ہے اور مکمل نتائج پر ان کا اثر ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک چینائی شہر کی بات ہے تو اس میں بھی 14 لاکھ سے زائد ووٹوں کا حذف کیا جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جس وقت الیکشن کمیشن کی جانب سے ایس آئی آر کا عمل جاری تھا اس وقت یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ تمام ووٹرس میں ناموں کے اندراج کیلئے فارمس کی تقسیم عمل میں لائی ہے اور اس میں کسی طرح کی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے ۔ اب ایس آئی آر کی تکمیل کے بعد 97 لاکھ ناموں کا حذف کیا جانا سبھی گوشوں کیلئے حیرت و استعجاب کا باعث بنا ہوا ہے ۔
جس طرح سے بہار میں عین انتخابات سے قبل ایس آئی آر کا عمل شروع کیا گیا تھا اسی طرح ٹاملناڈو اور دوسری ریاستوں میں بھی کیا گیا ہے ۔ بہار میں بھی لاکھوں نام ووٹر لسٹ سے حذف کئے گئے تھے تاہم ٹاملناڈو میں بہار کی تعداد کے برابر ووٹرس نہیں تھے ۔ اس کے باوجود بہار سے زائد ووٹوں کا حذف کیا جانا کئی سوال پیدا کرتا ہے ۔ شکوک و شبہات کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔ خود چیف منسٹر ٹاملناڈو مسٹر ایم کے اسٹالن نے بھی ایس آئی آر کے عمل کی مخالفت کی تھی اور اس کے خلاف کل جماعتی اجلاس طلب کرکے قرار داد منطور کی گئی تھی تاہم الیکشن کمیشن پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے اپنے منصوبے کے مطابق ایس آئی آر کا عمل مکمل کیا ہے ۔ اب جبکہ تقریبا ایک کروڑ ووٹرس کے نام فہرست سے حذف کئے جا رہے ہیں تو ایسے میں الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے اور وہ تمام تفصیلات ان جماعتوں کو پیش کرے جن کے نتیجہ میں اتنی بھاری تعداد میں نام حذف کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ اس کے جوکچھ بھی عوامل اور وجوہات رہی ہوں ان سب کو سیاسی جماعتوں کے سامنے اور ٹاملناڈو کے عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوں کا راست تعلق جمہوری عمل سے ہوتا ہے اور عوام کے ووٹوں کی مدد سے ہی سیاسی جماعتوںکو کامیابی ملتی ہے یا شکست ہوتی ہے ۔ کسی کو اقتدار ملتا ہے تو کسی کا اقتدار چھینا جاتا ہے ۔ ایسے میں یساسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہے کیونکہ اس عمل کا راست اثر سیاسی جماعتوں پر ہی ہونا ہے ۔ الیکشن کمیشن اپنے طور پر اس طرح کے اقدامات کرتے ہوئے خاموش نہیں ہوسکتا ۔
یہ درست ہے کہ الیکشن کمیشن ایک دستوری اور خود مختار ادارہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ووٹر لسٹ کا تعلق جمہوری عمل سے ہے اور سیاسی جماعتیں اس جمہوری عمل کا لازمی حصہ ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے انتخاب لڑنے کی وجہ ہی سے جمہوری عمل کو تقویت حاصل ہوتی ہے اورعوام اس کا حصہ بنتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اگر واقعی بھی واجبی وجوہات کی بناء پر اتنی بھاری تعداد میں نام حذف کئے گئے ہیں تو اس سے بھی ان جماعتوں کو واقف کروانے کی ضرورت ہے ۔ عوام میں بھی اس تعلق سے معلومات کوعام کرنا ضروری ہے کیونکہ جمہوری عمل عوامی شراکت کی وجہ سے بھی آگے بڑھتا ہے اور تقویت پاتا ہے ۔ اتنی بھاری تعداد میں ناموں کا ووٹر لسٹ سے نکالا جانا تشویش کی بات ہی کہا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن کو یہ تشویش دور کرنی چاہئے ۔
غزہ میں اب بھی غذائی بحران
غزہ میں تقریبا دو برس کی وحشیانہ کارروائیوں کے بعد جنگ بندی ہوئی ہے ۔ امریکہ اور دوسرے ممالک کی مداخلت اور دباؤ کے بعد اسرائیل نے اپنی وحشیانہ فوجی کارروائیوں کو روکا ہے جو جنگی جرائم کے زمرہ میں آتی ہیں۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ اس جنگ بندی معاہدہ کے بعد فلسطینی اتھاریٹی کے علاقوں اور خاص طور پر غزہ کے عوام کیلئے حالات میں بہتری آئے گی اور انہیں جنگ کی مصیبتوں سے کچھ راحت نصیب ہوگی ۔ تاہم ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ فلسطینی اتھاریٹی کے سارے ہی علاقوں میں اب بھی غذائی بحران کی کیفییت ہے اور فلسطینی عوام آج بھی دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنے پر مجبور ہیں اور بسا اوقات انہیں بھوک مری اورفاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو مہذب دنیا کیلئے کسی تازیانے سے کم نہیں ہے تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل اور اس کی فوج اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ ایسی صورتحال نہیں پائی جاتی ۔ بین الاقوامی اداروں اور ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ غزہ اور فلسطینی اتھاریٹی کے علاقوں کی صورتحال کا پتہ چلائے ۔ ماہرین نے جو دعوے کئے ہیں ان کی جانچ کی جائے اور فلسطینی اتھاریٹی اور غزہ میں غذائی قلت کو دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ بین الاقوامی اور اقوام متحدہ اداروں کو اس معاملے میں آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ غزہ کے عوام کو دو وقت کی روٹی ‘ پینے کیلئے صاف پانی اور ضرورت کی ادویات دستیاب ہوسکیں اور انہیں فاقہ کشی اور بھوک مری کی کیفیت سے نکالا جائے ۔ اس معاملہ میں اسرائیل پر لگام کسنے کی ضرورت ہے کہ وہ بین الاقوامی اداروں کو پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کرے اور ان پر کوئی پابندی عائد نہ کرے ۔