ہم موت کی حدوں میں بھی نغمہ سرا رہے
غم کو دلیلِ عظمتِ انساں کئے ہوئے
ٹاملناڈو پولیس تحویل میں اموات
ٹاملناڈو کے ایک پولیس اسٹیشن میں باپ اور بیٹے کی تحویل میں موت واقع ہوگئی ۔ کہا جا رہا ہے کہ لاک ڈاون میںتجارت بندکرنے کے اوقات کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور پولیس کی تحویل میں انتہائی اذیتیں دی گئیں جن کے نتیجہ میں دونوں کی موت واقع ہوگئی ہے ۔ اب ریاستی حکومت کی جانب سے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے اور سی بی آئی تحقیقات کی بھی بات کی جا رہی ہے ۔ اصل اپوزیشن ڈی ایم کے کی جانب سے سب سے پہلے سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کو ریاستی حکومت تسلیم کرنے آمادہ ہوگئی ہے ۔ تاہم جو واقعہ پیش آیا ہے اس کی تحقیقات کتنے وقت میں مکمل ہوگی اور اس دوران کیا کچھ ہوجائیگا اور کتنے شواہد ختم کئے جائیں گے اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ سب سے پہلے تو ریاستی حکومت کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے ابھی تک پولیس سے جواب طلبی کیوں نہیں کی ہے۔ ذمہ دار عہدیداروں سے سوال کیوں نہیں کئے گئے ہیں۔ جن پولیس عہدیداروں نے ان دونوں کو پولیس کی تحویل میں اذیتیں پہونچائی تھیں ان کے خلاف مقدمات کیوںدرج نہیں کئے گئے تھے ۔ فلم اسٹار سے سیاست میں قدم رکھنے والے کمل ہاسن نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ سب سے پہلے ذمہ دار پولیس عہدیداروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہئے ۔ دو سب انسپکٹران کو معطل کرنے اور انسپکٹر پولیس کو موجودہ ذمہ داری سے بری کردینے سے انصاف ممکن نہیں ہوسکتا ۔ نہ صرف سب انسپکٹران اور انسپکٹر پولیس بلکہ ان سے اعلی عہدیداروں سے بھی سوال کیا جانا چاہئے ۔ انہیں بھی جوابدہ بنانا چاہئے ۔ ریاستی حکومت کو پولیس مشنری کے آگے بے بسی کا مظاہرہ کرنے اور عام شہریوں کی ہلاکتوں پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے پولیس کو جوابدہ بنانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک اس طرح کے واقعات میںسخت گیر کارروائی نہیں کی جاتی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک نہیںپہونچایا جاتا اس وقت تک تحویل میں اموات کا سلسلہ رکنا محال ہوگا ۔ اور یہ بات محض ٹاملناڈو تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک کی ساری ریاستوں کو ایسا کرنا چاہئے ۔
ٹاملناڈو میںجن باپ اور بیٹے کو گرفتار کیا گیا تھا ان کا جرم بھی اتنا سنگین نہیں تھا کہ انہیں پولیس اسٹیشن لایا جاتا یا پھر انہیں وہاں غیر انسانی اذیتیں دے کر ان کی زندگیوں سے ہی کھلواڑ کیا جاتا ۔ یہ سب کچھ پولیس فورس کے اس احساس کا نتیجہ ہے کہ وہ قانون کے محافظ نہیں بلکہ ماورائے قانون اتھاریٹی بن گئے ہیں۔ وہ قانون کی رکھوالی کے نام پر جو چاہے کرتے پھریں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیںہے ۔ کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ اس کے علاوہ پولیس میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ عوام کے محافظ ہیں اور عوام کے ملازم ہیں۔ وہ عوام کے داتا یا آقا نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ جو چاہے سلوک کیا جائے ۔ پولیس اہلکاروں میں یہ حقیقت واضح ہونی چاہئے کہ ان کو جو تنخواہیں ملتی ہیں انہیں عوام کی جانب سے ادا کئے جانے والے ٹیکس سے ادا کی جاتی ہیں۔ حکومتوں کے پاس کوئی علاء الدین کا چراغ نہیں ہے کہ اسے گھس کر ان کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ لاک ڈاون کے قوانین کی پابندی کرنا ہر شہری کا فریضہ ہے اور اس کی ذمہ داری ہے لیکن کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو سزا بھی قانون کے مطابق دی جانی چاہئے اور کسی بھی قانون میں ملزم کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے یا اسے اذیتیں پہونچا کر موت کے گھاٹ اتاردینے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کی غیر انسانی حرکتوں کو کسی بھی قیمت پر برداشت کیا جاسکتا ہے ۔
پولیس عوام کی محافظ ہوتی ہے اور اسے عوام کے ساتھ دوستانہ برتاو کرنے کی ضرورت ہے ۔ پولیس کو اپنے رویہ سے عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہئے نہ کہ ان کے ساتھ وحشیوں جیسا سلوک کرتے ہوئے محکمہ کے امیج کو مزید خراب کیا جائے ۔ ٹاملناڈو میں جو کچھ ہوا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے ۔ غیر انسانی ہے ۔ مہذب سماج میں اس کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی اور ایسا کرنے والوں کو سزا دلائے بغیر بھی چھوڑا نہیں جانا چاہئے ۔ سی بی آئی تحقیقات کا خیر مقدم ہے لیکن ان ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جاناچاہئے ۔ ان کے ساتھ بھی حوالات میں وہی سلوک کیا جانا چاہئے جو انہوں نے ایک معمولی سی خلاف ورزی پر متوفی باپ اور بیٹے کے ساتھ روا رکھا تھا ۔ اسی طرح سے ان لوگوں میںدوسروں کی تکلیف کا احساس پیدا کیا جاسکتا ہے اور مستقبل میںایسا کرنے سے باز رکھا جاسکتا ہے ۔
