ویسے تو ملک کی چند ریاستوں میں مرکز کے نامزد کردہ گورنر اورعوام کی منتخبہ حکومتوں کے مابین ٹکراؤ اور تصادم کے واقعات عام ہوگئے ہیں تاہم ٹاملناڈو اس معاملے میں سب سے آگے دکھائی دے رہا ہے کیونکہ یہاں ریاستی حکومت اور گورنر کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اور دونوں اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے اور سرکاری کام کاج کو آگے بڑھانے میں تیار نہیں ہیں۔ دارالحکومت دہلی کے علاوہ ‘ کیرالا ‘ سابقہ بی آر ایس دور حکومت میں تلنگانہ ‘ مغربی بنگال اور کچھ دوسری ریاستوں میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے جہاں ریاستی حکومتوں کا گورنرس کے ساتھ ٹکراؤ ہوا ہے ۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو گذشتہ ایک دہے میں شروع ہوئی ہے ۔ آزادی کے بعد سے کئی بار ایسا ہوا ہے کہ مرکز میں ایک جماعت کی حکومت رہی تو ریاستوں میں عوام نے کسی دوسری جماعت کو موقع دیا تھا ۔ اس کے باوجود گورنرس اور ریاستی حکومتوں کے مابین بہتر تعلقات رہے تھے اور جو روایتی سرکاری کام کاج تھا وہ کسی رکاوٹ کے بغیر پرسکون انداز میں چلتا رہا تھا ۔ تاہم گذشتہ ایک دہے میں یہ صورتحال تبدیل ہوگئی ہے ۔ جن ریاستوں میں اپوزیشن جماعتوں کی حکومتیں ہیں وہاں گورنرس کی جانب سے حکومتوں کے کام کاج میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ عوام کی منتخبہ حکومت کے کام کاج میں مداخلت کرتے ہوئے اپنی بالا دستی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کئی ریاستی حکومتوں کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت کے نمائندے گورنرس سیاسی وابستگی کے مطابق کام کرتے ہوئے مرکز کے ایجنٹ کا رول ادا کر رہے ہیں۔ حالانکہ گورنرس اس طرح کے الزامات کی تردید اور نفی کرتے ہیں لیکن صورتحال اپنی جگہ ضرور رکاوٹوں والی بنی ہوئی ہے اور کئی اہم سرکاری بلز گورنرس کی منظوری کے منتظر پڑے ہیں۔ ان کی وجہ سے کئی اہم کام شروع ہونے سے پہلے رک رہے ہیں۔ کوئی کام کاج آگے نہیں بڑھ رہا ہے ۔ عوام کو راحت اور سہولیات پہونچانے کی کوششیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں اور حکومت و گورنر کے ٹکراؤ میں اگر واقعتا کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ ریاستوں کے عوام کا ہے ۔
ٹاملناڈو میں بھی گورنر آر این روی اور ریاستی ڈی ایم کے حکومت کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت چل رہی ہے ۔ کسی نہ کسی مسئلہ پر راج بھون اور چیف منسٹر کے دفتر میں رسہ کشی نظر آتی ہے ۔ حکومت کچھ بلز اور تجاویز تیار کرتے ہوئے منظوری کیلئے گورنر کو روانہ کرتی ہے لیکن گورنر کی جانب سے انہیں منظوری دینے میںرکاوٹ پیدا کی جاتی ہے ۔ کئی سوال پوچھے جاتے ہیں۔ اگر کچھ بلز منظور ہوتے بھی ہیں تو ان میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے ۔ یہ صورتحال گورنر ۔ ریاستی حکومت تعلقات کیلئے اچھی نہیں ہے اور نہ ہی ریاست کے عوام کیلئے اسے بہتر کہا جاسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں اب عدالتوں کو مداخلت کرنی پڑ رہی ہے ۔ ٹاملناڈو کی صورتحال پر سپریم کورٹ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور دونوں فریقین کو اپنے معاملات حل کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ اگرا ن مسائل کو آئندہ سماعت کے موقع تک دور کرلیا جائے تو بہتر ہے ورنہ عدالت ان معاملات کو حل کرے گی ۔ عدالت کا یہ تبصرہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف ٹاملناڈو میں بلکہ ان تمام ریاستوں میں جہاں گورنرس غیر ضروری مداخلت کا راستہ اختیار کر رہے ہیں حالات کو بہتر بنالیا جانا چاہئے ۔ اگر عدالتوں سے یہ معاملات درست ہوتے ہیں تو پھر حکومت اور گورنر دونوں ہی کیلئے یہ اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی اور اس کے اثرات دونوں ہی پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں جہاں حکومت کی امیج متاثر ہوگی وہیں گورنر کے عہدہ کا وقار بھی مجروح ہوگا ۔
چاہے گورنر ہوں یا پھر ریاستی حکومتیں ہوں دونوں کو اپنے اپنے اختیارات اور حدود کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہر ایک کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر ریاستوں کے عوام کی مشکلات کو دور کیا جاسکے اور انہیں ممکنہ حد تک راحت پہونچائی جاسکے۔ آپسی اختلافات یا دوریوں کو عوامی مشکلات کی وجہ بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ جہاں گورنر ریاست کے سربراہ ہیں وہیں حکومت ریاست کے عوام کی منتخبہ ہے ۔ ایسے میں ایک دوسرے کے وقار کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے اور سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اختلافات کو حل کرلیا جانا چاہئے ۔