سیما گوہا
وزیراعظم نریندر مودی اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ بظاہر اتنے مختلف ہیں جیسے چاک (گل سپید) اور پنیر (چیز)۔ مودی کا غریبی کے پس منظر سے تعلق ہے اور وہ بنیادی طور پر سخت محنت، آر ایس ایس کے تئیں عہد اور ہندوتوا کی طاقت پر موجودہ مقام تک پہنچے ہیں۔ ٹرمپ کا تعلق نیویارک کی مالدار فیملی سے ہے، وہ ’پلے بوائے‘ (شوخ اور کبھی کبھی مستی کرنے والا) قسم کے اَرب پتی اور عیاشانہ نوعیت کے جنسی باتوں کا ٹریک ریکارڈ رکھنے والے ’شومین‘ ہیں۔ پھر بھی 69 سالہ بی جے پی لیڈر اور اُن کے زائد از 73 سالہ امریکی ہم منصب کے درمیان مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں نے اپنے اپنے ملک کی سیاست پر بڑا اثر ڈالا اور متعلقہ سیاسی لغت کو بدل ڈالا، جو اکثر ابتری کا موجب بنا ہے۔ لیکن مودی اور ٹرمپ ہی ایسے قائدین نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں کٹر دائیں بازو والوں کی واجبیت بڑھ رہی ہے۔ اس کیمپ میں برطانیہ کے بورس جانسن، برازیل کے جیئر بولسونارو شامل ہیں۔ بولسونارو کا ماننا ہے کہ تبدیلی ٔ آب و ہوا فرض باتیں ہیں اور وہ ہالی ووڈ یکٹر لیونارڈ ڈی کیاپریو کو امیزان جنگلات کی آگ کیلئے ذمہ دار مانتے ہیں۔ وطن سے قریب تر دیکھیں تو فلپائن کے طاقتور لیڈر صدر روڈریگو ڈیوٹرٹے بھی اس کلب میں ہیں۔ وہ مانتے ہیں کہ منشیات کے بیوپاریوں کو قتل کردینا درست ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے نیشنل پالیٹکس کے حاشیے پر رہی قوتیں واپسی کررہی ہیں جبکہ دنیا کے کئی حصوں میں رواداری و فراخدلی پر مبنی اقدار خطرے میں ہیں۔
مودی اور ٹرمپ نے سیاست کو اس حد تک شخصی رنگ میں ڈھال دیا ہے کہ کم از کم انڈیا میں مودی کو اُس پارٹی سے کہیں زیادہ مقبولیت حاصل ہے جس کے وہ نمائندہ ہیں۔ امریکی صدارتی طرز حکومت نے کسی حد تک ہمیشہ ہی ’پرسنل اسٹائل‘ کی گنجائش رکھی ہے، لیکن ڈیموکریٹس اور ریپبلکنس دونوں نے ہمیشہ ہی پارٹی کی خاصیتوں کو نظرانداز کیا ہے۔ واشنگٹن کیلئے باہر والے ٹرمپ جیسا کہ مودی کا معاملہ ہے، قومی سیاست میں نسبتاً ناتجربہ کار شخص ہیں، لیکن دونوں نے پارٹی کو اس طرح تبدیل کیا کہ اُن کی شخصیتوں کی عکاسی کرے۔ امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی کو ماضی کے پس منظر میں پہچاننا مشکل بنادیا ہے۔ قدیم طرز کے اچھے اقدار جو ہمیشہ ریپبلکنس کا خاصہ رہے، اب تبدیل کردیئے گئے اور وہ ٹرمپ کی نہایت مختلف سیاسی باتوں کی عکاسی کررہے ہیں۔
مودی بی جے پی کا چہرہ اور ہندوتوا کی پہچان ہے۔ حتیٰ کہ ریاستی انتخابات میں مودی مرکزیت حاصل کرلیتے ہیں، حالانکہ ہمیشہ اتنا مؤثر نہیں ہوا جیسے قومی سیاست میں ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ مودی اپنے پارٹی کے ایجنڈہ کے تئیں پابند عہد ہیں اور ’آئیڈیل ہندو اسٹیٹ‘ تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں تمام شہریوں بشمول اقلیتوں کو ضرور ثقافتی طور پر ہندو بننا چاہئے۔ مودی اور ٹرمپ دونوں جنونی قوم پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ’’امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں‘‘ یعنی اُن سے قبل کے قائدین بالخصوص اُن کے پیشرو اور ڈیموکریٹ سابق صدر براک اوبامانے امریکی مفادات کو بیچ ڈالا۔ ٹرمپ کی 2016ء انتخابی مہم میں شروع سے آخر تک اوباما ہی تیر و نشتر کا نشانہ بنے رہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے اوباما کے زیادہ تر کلیدی خارجہ پالیسی اقدامات کو منسوخ کردیا، چاہے پیرس کلائمیٹ چینج اگریمنٹ ہو کہ ٹرانس۔ پسیفک پارٹنرشپ اگریمنٹ، یا پھر ایران نیوکلیر اگریمنٹ۔ ٹرمپ نے ان تمام معاہدوں کو بین الاقوامی ذمہ داریوں پر دھیان دیئے بغیر کوڑے دان میں ڈال دیا۔ ٹرمپ کیلئے کلیدی نکتہ یہ ہے کہ انھیں امریکہ کے حق میں بہترین اقدامات کا خوب اندازہ ہے۔ ہوشیار بزنس لیڈر کی حیثیت سے ٹرمپ نے خود کو ماہر معاملت ساز کے طور پر پیش کیا جو یقینی بنائے گا کہ امریکہ ہی آخرکار ونر ہوگا۔ فلپائنی لیڈر کی طرح ٹرمپ کو بھی کلائمیٹ چینج وہم معلوم ہوتا ہے، جو اُن کی رائے میں چینیوں نے پیدا کیا ہے۔ شکر ہے مودی ان خیالات میں شریک نہیں ہیں۔
مودی نے خود کو ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا ہے جسے ہندوستان کا بہترین مفاد معلوم ہے۔ تمام خرابیوں کیلئے کانگریس کو ذمہ دار ٹہرانا ہے۔ اور جہاں ٹرمپ کے ناپسندیدہ لیڈر اوباما ہیں، وہیں مودی کیلئے نہرو۔ گاندھی فیملی، بالخصوص بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو ہیں۔ حالانکہ وہ ایک مکمل پانچ سالہ میعاد مکمل کرچکے اور مزید ایک جیت چکے ہیں، لیکن مودی بدستور نہرو کو نشانہ بناتے ہوئے کانگریس پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ 2019ء کا پارلیمانی الیکشن مودی نے اپنے پرفارمنس کے موضوع پر نہیں جیتا (قوم ہنوز اُس بدبختانہ نوٹ بندی کو بھگت رہی ہے جس نے معیشت پر کاری ضرب لگائی لیکن مودی کے شخصی امیج پر نہیں)۔ پلوامہ حملہ کا مہارت سے مودی مشینری نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ حکومت پر سوال اٹھانے والے کسی بھی فرد کو موافق پاکستان اور قوم دشمن قرار دیا گیا۔ 14 فبروری 2019ء کے بعد قوم پرستی مودی کی مہم کا مرکزی موضوع بن گئی۔ پاکستان کے بالاکوٹ میں ہندوستان کا فضائی حملہ، اگلے روز کی لڑائی جو ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو پاکستان کی جانب سے پکڑلینے اور پھر ہیرو کے طور پر اُس کی واپسی پر ختم ہوئی… یہ تمام تبدیلیاں طاقتور لیڈر کی بی جے پی کے نظریہ کو تقویت پہنچاتی رہیں۔ ایسا لیڈر جو منموہن سنگھ اور کانگریس کے برخلاف پاکستان کو ’’منہ توڑ جواب‘‘ دے سکتا ہے۔ مدد کرنے کیلئے بہادرانہ مہم اور پھر دشمن کے علاقہ میں خود پکڑے جانا، اسے سمجھنا یا سمجھانا مشکل ہے، لیکن اُس کی واپسی بڑا محب وطن اور نیشنل ایونٹ میں تبدیل ہوگئی۔ بی جے پی سیاست کے ساتھ مذہب کو خلط ملط کرتے ہوئے اقتدار تک دوبارہ پہنچ گئی۔ کانگریس کی طرف سے ’’مسلم خوشامد‘‘ کا واویلا کرتے ہوئے مودی اور اُن کے بھروسہ مند امیت شاہ نے 2014ء اور 2019ء میں ہندو ووٹوں کو ٹھوس بنایا۔
آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کو بنیادی طور پر سپریم کورٹ کی ہدایات پر اَپ ڈیٹ کیا گیا، لیکن بی جے پی اس عمل کا اعادہ سارے ملک میں کرنا چاہتی ہے تاکہ ’’دیمک‘‘ کو نکال باہر کیا جائے… یہ غیرقانونی ایمگرنٹس کیلئے امیت شاہ کی اصطلاح ہے۔ مجوزہ ملک گیر این آر سی کے خلاف عوامی ہلچل نے حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے، لیکن اسے نیشنل پاپولیشن رجسٹر کی شکل میں پچھلے دروازے کے ذریعے لایا جارہا ہے۔ شہریت (ترمیمی) قانون یعنی سی اے اے 2019ء بھارت کے بانیوں پر ایک اور ضرب ہے ، جنھوں نے مذہب کو شہریت کی کسوٹی نہیں بتایا۔ سی اے اے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مسلمانوں کو چھوڑ کر چھ مذہبی اقلیتوں کو بھارتی شہریت آسانی سے حاصل کرنے کی راہ ہے۔ یہ قانون بلاشبہ آسام، مغربی بنگال اور دیگر ریاستوں میں ہندو ووٹ بینک کو مضبوط بنانے کی نیت کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح حب الوطنی کا جوش و خروش اور اینٹی مائیگرنٹ احساسات میں ٹرمپ بھی برابر شریک ہیں، ویسے وہاں نشانہ میکسیکو والے ہیں۔ بچوں سے والدین کو علحدہ رکھنا اور غیرقانونی طور پر مقیم میکسیکو والوں کو سرحد پار جیلوں میں ڈال دینا دنیا بھر میں کہیں بھی کٹر دائیں بازو کے مخالف تارکین وطن موقف کی موافقت میں ہے۔ بریگزٹ بورس جانسن کا یورپی یونین کے مائیگرنٹس برطانوی جابس حاصل کرلینے کے اندیشوں کو ہوا دینے کا نتیجہ ہے۔
ٹرمپ اور مودی دونوں اپنے عہدہ کی شان کے برعکس ناپسندیدہ ریمارکس کردیتے ہیں۔ مودی نے حال میں کہا کہ اینٹی سی اے اے احتجاجیوں کی اُن کے کپڑوں سے شناخت کرلی جاسکتی ہے، اس طرح اُن کا مفہوم رہا کہ وہ مسلمان ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ایسے کئی افراد سے جڑے ہیں جو نفرت کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ اور ٹرمپ نے اپنی سابقہ ڈیموکریٹک حریف ہلاری کلنٹن کے بارے میں ناپسندیدہ پرسنل ٹویٹ کیا تھا: ’’اگر ہلاری کلنٹن اپنے شوہر کو مطمئن نہیں کرسکتی تو وہ کیونکر سمجھتی ہے کہ امریکہ کو مطمئن کرسکتی ہے؟‘‘ اس طرح کہ فحش ریمارکس ٹرمپ کی خاصیت ہے۔
