صیاد کے ستم کا کریں کس سے کیا گلہ
گلزار میں تھا موت کا منظر یہاں وہاں
سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر جان لیوا حملہ کیا گیا ۔ جب ٹرمپ ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے ان پر فائرنگ کی گئی ۔ وہ بال بال بچ گئے ۔ ان کے کان کو چھوتی ہوئی گولی نکل گئی اور وہ زیادہ زخمی نہیں ہوئے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس بار بھی امریکہ کے صدارتی انتخاب میں مقابلہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور انہوں نے اس کیلئے اپنی مہم کا بھی آغاز کردیا ہے ۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کیلئے وہ ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرے ہیں۔ جو بائیڈن اپنی صحت کی وجہ سے عوام میں مقبولیت کھوتے جارہے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ امریکی صدر بائیڈن کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور وہ ذہنی طور پر امریکی صدارت کیلئے مناسب اور فٹ نہیں رہ گئے ہیں۔ وہ بھولنے کی بیماری کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بحیثیت مجموعی فٹنس کے تعلق سے بھی اکثر و بیشتر اندیشوں کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں ٹرمپ کا انتخابی میدان میں دوبارہ کودنا خود بائیڈن کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا ۔ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف بھی مسلسل بڑھنے لگا تھا اور جو بائیڈن پر اس بات کیلئے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی صحت کی وجہ سے صدارتی انتخاب میں مقابلہ سے دستبرداری ہوجائیں اور کسی دوسرے کو موقع دیا جائے ۔ ابھی یہ طئے نہیں ہوا کہ جو بائیڈن واقعی مقابلہ سے دستبردار ہونگے یا نہیں لیکن یہ اب تقریبا واضح ہونے لگا ہے کہ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کو بہت دلچسپ بنانے والے ہیں۔ مقابلہ بہت سخت ہوسکتا ہے اور یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدارت کیلئے منتخب بھی ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ ویسے تو دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی سیاسی لیڈر پر اس طرح کے حملے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ کسی کی تائید یا مخالفت سیاسی بنیادوں پر کی جاسکتی ہے لیکن اس طرح حملوں کا شکار بنانے کا کوئی جواز نہیںہوسکتا اور نہ یہ عمل قابل قبول ہوسکتا ہے ۔ سیکیوریٹی عملہ نے حالانکہ حملہ آور کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ہے تاہم ایسا کرتے ہوئے یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ میں سابق صدور بھی حملوں سے محفوظ نہیں کہے جاسکتے ۔
ٹرمپ پر حملے کے بعد سے کئی طرح کے خیال ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ کوئی اسے سیاسی حکمت عملی کا حصہ بھی کہا جا رہا ہے اور یہ دعوے ہو رہے ہیں کہ یہ حملہ بھی طئے شدہ منصوبہ کے تحت کیا گیا ہے ۔ داخلی طور پر اس حملے اور ان دعووں کی حقیقت پر یہاں بیث نہیں کی جاسکتی لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اس حملے کے امریکہ کے صدارتی انتخابات پر ضرور اثرات مرتب ہونگے اور ڈونالڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔ جس طرح سے حالات بننے لگے ہیں ان کے مطابق جو بائیڈن اگر امریکی صدارتی انتخاب میں مقابلہ کرتے بھی ہیں تب بھی ان کیلئے یہ آسان نہیں رہے گا ۔ حالانکہ انہوں نے ہی ٹرمپ کو شکست دی تھی لیکن اس بار ان کا ٹرمپ کے مقابلہ میں شکست سے بچنا آسان نہیںہوسکتا ۔ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ایک مذموم اور بزدلانہ حرکت ہی کہی جاسکتی ہے تاہم اگر حملہ آور کو فوری جوابی کارروائی میں ہلاک کرنے کی بجائے گرفتار کیا جاتا تو اس کے پس پردہ محرکات کا پتہ چلایا جاسکتا ۔ جو عناصر ایسی کارروائی کے ذمہد ار ہیں ان کی نشاندہی کی جاسکتی اور انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جاسکتا۔ حملہ آور کی موت سے بھی حملہ کے طئے شدہ ہونے کے دعوے کئے جا رہے ہیںلیکن محض کسی ایک اتفاق کی وجہ سے سارے حملے کو طئے شدہ قرار دینا درست نہیںہوسکتا ۔ یہ سب کچھ تحقیقات کا متقاضی ہے اور امریکی حکام ضرور اس معاملے میں تحقیقات کو منقطی انجام تک پہونچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس صورتحال میں کسی بھی طرح کا قیاس کرنا درست نہیںہوگا ۔
چونکہ اس حملے کے سیاسی اثرات بہت زیادہ ہونے والے ہیں اور امریکی صدارتی انتخاب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہے گا ایسے میںزیادہ تبصرے ہونے لگے ہیں۔ جہاں تک جو بائیڈن انتظامیہ کا سوال ہے تو یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ ملک میں سکیوریٹی صورتحال کو بھی بہتر ڈھنگ سے سنبھالنے میں کامیاب نہیںہوئے ہیں۔ اگر ایک عوامی ریلی میں سابق صدر پر حملہ کیا جاسکتا ہے تو اس کے اثرات لازمی طور پر مرتب ہونگے اور انتظامیہ اس کیلئے ضرور جوابدہ بھی ہے ۔ بائیڈن کیلئے اس حملے کے اثرات سے بچنا عوامی سطح پر بھی مشکل ہوگا اور انتخابی میدان میں بھی حالات سے نمٹنا ان کیلئے آسان نہیں رہے گا ۔