ٹرمپ کا طریقہ غلط تھا

   

راج دیپ سردیسائی
صدر امریکہ کا انتخاب مکمل ہوچکا ہے، قطعی فیصلہ بھی آچکا لیکن یہ بات قابل فہم ہے کہ جو کچھ بھی ہوا صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ذرائع ابلاغ اور انتخابی مہم چلانے والوں کو اپنی طاقت سے مرعوب کرنے کی کوشش کی۔
اس لئے کئی تجربہ کار تبصرہ نگاروں اور انتخابی مہم چلانے والوں کو مقرر کیا گیا تھا جو ڈیموکریٹک امیدوار سابق نائب صدر جوبائیڈن کے بارے میں مسلسل پیش قیاسی کرسکتے تھے کہ انہیں دوسرا موقع دینے کی غلطی کیوں کی جارہی ہے۔ غیر یقینی دور میں انتخابی رویہ کی پیش قیاسی کا خطرہ مول لینے سے پہلے ایک نادیدہ عنصر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دونوں طبقات کے درمیان دشمنی کے قدیم رویہ کا اعادہ نہیں کرنا چاہئے۔ معافی نہ مانگنے والے انا پسند شخص کی حیثیت سے ٹرمپ نے رائے عامہ کو نمایاں طور پر تقسیم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی نے یقینی شکست تسلیم کرلی ہے تاہم اسے امید ہے کہ فراخدل امریکہ کے گروپس میں جو عالم گیر سطح پر پھیلے ہوئے ہیں یہی رویہ موجود ہوگا کہ دائیں بازو کو زبردست جھڑپ کا نشانہ بناتے ہوئے تقسیم کے منصوبہ پر عمل کیا جائے اور بنیادی اقدار کی تہذیبی اور بہتر شہریت کو بحال کیا جاسکے اور اسے غلبہ پانے کا موقع دیا جاسکے۔
ایک قوم جو نسلی اور طبقات کی بنیادوں پر مایوس کن صورتحال میں ہے ضروری ہے کہ اس کے زخموں کو مندمل کیا جائے لیکن یہ نقطہ نظر عام طور پر ہم جیسے لوگوں کا مشترک نقطہ نظر ہے۔ اسے انتخابات کے سلسلہ میں ’’ان جیسے لوگوں‘‘ پر مسلط نہیں کیا جاسکتا جو آخر کار فیصلہ کریں گے کہ ہم خیال قابل قدر لوگوں کے واٹس اپ گروپس کیا ہوسکتے ہیں لیکن رائے دہندوں کی اکثریت کو خاموش کرنا ضروری ہے۔

ایک لحاظ سے ٹرمپ پر ان کے ناقدین نے جتنی زیادہ تنقید اور تحقیر کی اتنا ہی زیادہ ان کی تائید کرنے والے گروپ میں استحکام پیدا جبکہ قیادت کے بارے میں ان کا شخصی نقطہ نظر قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ ڈیموکریٹک دشمن ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی شخصیت پرکشش بن جاتی ہے اور وہ روایتی سیاسی شخصیتوں میں سے ایک بن جائیں گے جو قومی سطح پر ایک بے چین شخصیت کی حیثیت سے مشہور ہیں۔
ٹرمپ ان عالمی قائدین میں سے ایک ہیں جو حقیقت سے زیادہ بڑی شخصیت پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ رجحان ڈکٹیٹرس اور جمہوریت پر مبنی حکومت دونوں میں پایا جاتا ہے۔ نریندر مودی سے لے کر ترکی کے رجب طیب اردغان، برطانیہ کے بوریس جانسن سے لے کر برازیل کے جیر بولسانارو اور روس کے ولادمیر پوٹن سے لے کر چین کے ژی جن پنگ میں سے ہر ایک میں پایا جاتا ہے۔ یہ تمام قائدین اپنی جارحانہ سیاست اور محتاط انداز میں تراشی ہوئی شبیہہ کی وجہ سے پیشرفت کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

ان کی تفصیل بھی ایک ہی قسم ہے۔ ان کی قومی سطح پر مقبولیت بھی قومی مساوات کے تیقن پر مبنی ہے۔ وہ اپنی مستحکم اور سخت لب و لہجہ کی شخصیت کی حیثیت سے لوگوں کے لئے پرکشش بن گئے ہیں لیکن ان تمام قائدین میں ٹرمپ ہمیشہ تھوڑے سے نمایاں رہے ہیں۔ وہ ایک کاروباری شعبہ کی شخصیت ہیں جن کے سیاست کے بارے میں نظریات اور ریالٹی ٹی وی کے زیر تربیت نمایاں شخص کی حیثیت سے شہرت نے اس سیاسی کھیل میں ان کے کردار کا تعین کیا ہے۔ انہیں نرگیسیت جیسی نوعیت سے تحریک حاصل ہوئی ہے جبکہ تمام مرد آہنگ جیسے قائدین ادارہ جاتی عوامل کی پیداوار ہیں، دلیل دی جاتی ہے کہ ٹرمپ مساوی طور پر اپنا موقف واضح کرنے والے قائدین میں سے ایک ہیں۔ کووڈ ۔ 19 کے دور میں خاص طور پر ٹرمپ نے حکمرانی کا نمایاں طور پر غلط رویہ اختیار کیا تھا وہ وائیٹ ہاوز میں تھے اور لازمی طور پر عالمی وباء کی اہمیت کو جرأت اور دلیری کے ساتھ مسترد کرسکتے تھے چنانچہ انہوں نے ماسک پہننے سے بھی انکار کردیا تھا، حالانکہ سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کی جانب سے قابل بھروسہ ثبوت مل چکے تھے کہ انہیں ماسک پہننے سے ہی اس وباء سے بچنے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ انہوں نے عوامی زندگی کے لئے نامعقول ذہنیت کا بھی مظاہرہ کیا تھا۔

اس کے باوجود 2020 کی سب سے بڑی تشویش معاشی انحطاط یا سست رفتاری کے دوران ٹرمپ نے اپنا یہ پیغام پھیلایا کہ وہ بہت بہتر مقام پر موجود ہیں۔ بہ نسبت اپنے حریفوں کے اور ملک کی شرح ترقی بحال ہوچکی ہے۔ امریکہ کی کووڈ ۔ 19 وباء سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دیگر ممالک کی بہ نسبت زیادہ تھی لیکن ملک انحطاط کی اس صورتحال سے توقع سے زیادہ تیزی کے ساتھ ابھر آیا۔ معیشت بحال ہوگئی اور بے روزگاری کی سطح کم ہونا شروع ہوگئی۔ ٹرمپ پرامیدی کا جذبہ بیدار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کی اور آخر کار کامیابی حاصل کی۔

پسنوشت : مئی 2019 کے پہلے ہفتہ میں جبکہ وہ کئی ہفتوں تک ملک گیر دورہ کررہے تھے میں نے ایک ویڈیو پیغام دیکھا تھا جس میں بی جے پی کے لئے عام انتخابات میں 300 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی پیش قیاسی کی گئی تھی، ایک تجربہ کار ایڈیٹر نے یہ کہنے کے لئے مجھے فون کیا تھا کہ ’’آپ بھی آخر کار فروخت ہوگئے اور ملک میں مودی مخالف رجحان دیکھنے لگے؟‘‘ نتائج کے بعد میں نے ایک صحافی کو روانہ کیا اور اس کے ساتھ شائع شدہ پیغام روانہ کیا کہ ’’اپ کے واٹس اپ گروپس میں ملک کے رجحان کا فیصلہ نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا فیصلہ حقیقی ہندوستان کی گرد آلود گلیوں میں ہوتا ہے‘‘۔ یہی بات امریکہ کے بارے میں بھی درست ہے۔