ڈونالڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ امریکی صدارت کیلئے منتخب ہونے اور عہدہ سنبھالنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ دنیا کا نقشہ ہی بدلنا چاہتے ہیں اور انہوںنے انتہائی جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے ۔ پہلے تو انہوں نے کناڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست قرار دینے کا ارادہ ظاہر کیا پھر انہوں نے ایک جزیرہ حاصل کرلینے کی بات کی اور وہ غزہ پر قبضہ کرلینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو علاقائی ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو اپنے ملکوں میںجگہ دیں۔ پھر انہوں نے غزہ پر قبضہ کرلینے کی بات کی اور اب انہوں نے اسرائیل کی حمایت میں بات کرتے ہوئے غزہ شہر پر دوزخ کے دروازہ کھولدینے کی دھمکی ہے ۔ اس طرح انہوں نے وحشیانہ تباہی مچانے کے ارادے کا اظہار کیا ہے ۔ ویسے ہی گذشتہ سوا سال میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کو تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی تھی ۔ وہاںانتہائی غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ۔ غزہ کے نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے غذا اور دوا جیسی بنیادی ضروریات تک کو روک دیا گیا تھاا ۔ غزہ کے عوام کو پینے کیلئے پانی تک حاصل کرنا دشوار ہوگیا تھا ۔ کئی کئی شہروں کو صرف ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ جن شہروں اور بستیوں میں زندگی کی چکاچوند ہوا کرتی تھی اور روانی ہوا کرتی تھی وہاں ویرانیاں راج کرنے لگی ہیں۔ ہزاروں فلسطینیوں کو شہیر کردیا گیا ۔ ہزاروں سے زیادہ معذور ہوگئے ہیں۔ کئی ہزار لاپتہ بتائے گئے ہیں۔ اس ساری تباہی کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اور اسرائیل کی انسانی خون کیلئے پیاس ابھی تک بجھی نہیں ہے اور وہ غزہ کے تعلق سے مزید ناپاک عزائم رکھتے ہیں ۔ جس طرح غزہ میں جنگ بندی ہوئی تھی اس کے بعد کچھ حالات کے بہتر ہونے کی امید کی جا رہی تھی ۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اور حماس کی جانب سے اگر اس پر اعتراض کیا جاتا ہے تو نہ صرف اسرائیل بلکہ ڈونالڈ ٹرمپ بھی چراغ پا ہونے لگے ہیں۔ اب انہوں نے اسرائیل کی حمایت میں غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دینے کی دھمکی دی ہے جو انتہائی تشویشناک ہے ۔
ٹرمپ جس وقت سے دوسری معیاد میںصدارتی ذمہ داری سنبھالے ہیں اس وقت سے ہی ان کے تیور جارحانہ دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ دنیا بھر کی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ خود کو امریکہ کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا صدر سمجھنے لگے ہیں۔ ہر ایک کیلئے احکام جاری کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ دنیا کے ایک طاقتور ملک کے صدر کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دنیا بھر میںامن و امان اور سلامتی کو یقینی بنائیں۔ مظلوموں کا ساتھ دیتے ہوئے ظلم کرنے والوں پر لگام کسنے کیلئے آگے آئیں ۔ تاہم ڈونالڈ ٹرمپ بھی تمام سابق امریکی صدور کی طرح اسرائیل کے جارحانہ اور انسانیت سوز مظالم کا ساتھ دینے میںلگے ہیں بلکہ ان مظالم کو آگے بڑھانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ غزہ پر قبضہ کرلینے اور پھر وہاں بے تحاشہ تباہی مچانے کی دھمکیاں ایسی نہیںہے کہ انہیں نظر انداز کردیا جائے ۔ ٹرمپ کا جو سابقہ ریکارڈ ہے اس کو دیکھتے ہوئے اور ان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہ انتہائی تشویش کی بات ہے ۔ اس جانب ساری دنیا کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ فلسطینیوں کا حق مارنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اور نہ ہی انہیں ان کی ہی سرزمین سے بیدخل کرنے کا کسی کو اختیار دیا جانا چاہئے ۔ ساری دنیا کو ایک آواز ہوکر ٹرمپ کو ان کے جارحانہ منصوبوں اور عزائم سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ پھر دنیا میں تباہی مچانے میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔
اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے تو ویسے بھی امریکہ کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور وہ اپنی ہی قرار دادوں پر اسرائیل میں عمل آوری کروانے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہی انہیں ان کی کوئی فکر لاحق ہے ۔ کم از کم اب جبکہ ایک بڑے خطرے کا احساس ہورہا ہے ان اداروں کو حرکت میںآتے ہوئے عالمی سطح پر ایک رائے ہمور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے اور نہ ہی ان پر مزید کسی طرح کے مظالم ڈھانے کی کسی کو اجازت دی جانی چاہئے ۔ وقت رہتے ان اداروں اور انصاف پسند ممالک کو حرکت میں آنا چاہئے تاکہ دنیا ایک اور تباہی سے بچ سکے ۔