ٹرمپ کے دعووں کی تردید کیوں نہیں ؟

   

یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
صدرامریکہ ڈونالڈ ٹرمپ لگاتار یہ دعوے کر رہے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ رکوائی ہے اور انہوںنے یہ بھی دعوی کیا کہ دونوںملکوںپر انہوں نے 250 فیصد تک شرحیں عائد کردینے کا انتباہ دیا تھا جس کے بعد ان ممالک کیلئے تجارت کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا ۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس جنگ کے دوران سات طیاروںکو مار گرایا گیا ہے ۔ یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ طیارے کس ملک کے تھے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ٹرمپ نے اس طرح کے دعوے کئے ہیں اور جنگ بندی کا سہرا اپنے سرباندھنے کی کوشش کی ہے ۔ ٹرمپ نے اس سے پہلے بھی کئی بار یہ دعوی کیا ہے اور اس پر کئی گوشوںسے کئی طرح کے رد عمل ظاہر کئے گئے تھے ۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے تو اس نے کوئی موثر ڈھنگ سے اس کا جواب دینے سے گریز کیا ہے ۔ وزارت خارجہ کی جانب سے مبہم انداز میں اندرون ملک کے حالات اور اثرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنگ بندی کے دعووں کو مسترد کیا گیا ہے لیکن خود وزیر اعظم نریندر مودی نے راست ٹرمپ کا نام لے کر ان دعووںکی تردید نہیں کی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ لگاتار اس طرح کے دعوے کرتے چلے جا رہے ہیں اور تجارت روک دینے کی دھمکی کے اثر انداز ہونے کے دعوے بھی کر رہے ہیں۔ ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ مسائل اور تنازعات کے معاملے میں ہمیشہ ہی کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت کو مستردکردیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہر فورم میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے ۔ پاکستان ہمیشہ ہی باہمی مسائل کو بین الاقوامی فورمس میں موضوع بحث بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ پاکستان کو اس طرح کی کوششوںسے اندرون ملک سیاسی فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اسے داخلی مسائل اور پریشانیوںسے عوام کی توجہ ہٹانے میں کامیابی ملتی ہے لیکن جہاں تک ہندوستان کا مسئلہ ہے تو ملک کا یہ مسلمہ موقف ہے کہ اس میں کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت قابل قبول نہیں ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ کے دعوے ہندوستان کے اس مسلمہ موقف کی نفی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے تعلق سے بھی ڈونالڈ ٹرمپ الگ الگ وقتوں میں الگ الگ دعوے کرتے ہیں۔ وہ بیشتر وزیر اعظم کی ستائش کرتے ہیں اور انہیں ایک اچھا لیڈر بھی قرار دیتے ہیں ۔ ایسے میں اگر وہ ہند ۔ پاک جنگ تجارتی دھمکی کے ذریعہ روکنے کا دعوی کرتے ہیں تو اس کی تردید انتہائی موثر ڈھنگ سے کی جانی چاہئے اور اس طرح کی بیان بازیوں کا سلسلہ روکا جانا چاہئے ۔ ہندوستانی موقف کے لحاظ سے یہ بہت ضروری ہے ۔ امریکہ ہو یا کوئی اور ملک ہو یا کوئی اور ادارہ ہی کیوں نہ ہو پاکستان کے ساتھ تنازعات کے معاملہ میںکسی بھی طرح کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے ۔ جہاں تک جنگ بندی کا سوال ہے تو اس پر بھی ٹرمپ کو بیان بازیوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے لیکن ٹرمپ اس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس صورتحال میں ضروری ہوگیا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے موثر ڈھنگ سے اس کی تردید کی جائے اور یہ مسئلہ امریکی صدر سے راست رجوع کرتے ہوئے اس کا ازالہ کیا جائے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے اس طرح کے دعووں کی نفی کی جانی چاہئے ۔ راست ٹرمپ کا نام لیتے ہوئے یا پھر ان سے فون پر بات کرتے ہوئے ایسے دعووں کی تردید ضروری ہے ۔ ٹرمپ کے دعوے ہندوستان کیلئے کوئی مثبت اثر والے نہیں ہوسکتے اور اس سے ملک کے مفادات پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کا جتنا ممکن ہوسکے جلدی ازالہ کیا جانا چاہئے ۔ ایسے لگاتار دعوے عوام کے ذہنوں میں سوال پیدا کرتے ہیں۔
ہندوستان میں ٹرمپ کے دعووں پر زبردست سیاست بھی کی جاتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ان پر حکومت کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ بی جے پی کے ترجمان ان کی تردید کرتے ہیں اور انہیں بکواس قرار دیتے ہیں لیکن حکومت کی سطح پر اس کا ازالہ جب تک نہیں کیا جائے گا اور راست ٹرمپ سے یہ مسئلہ رجوع نہیں کیا جائے گا اس وقت تک اس طرح کے دعووں کا سلسلہ دراز ہی ہوتا چلا جائے گا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو اس مسئلہ پر پہل کرنے کی ضرورت ہے اور ڈونالڈ ٹرمپ سے رابطہ کرتے ہوئے اس کی وضاحت کروائی جانی چاہئے تاکہ عوام کے ذہنوں میں موجود سوالات کو دور کیا جاسکے ۔