ٹرمپ کے متنازعہ ریمارک پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا یوٹرن

   

Ferty9 Clinic

اگر ہندوپاک چاہیں تو ٹرمپ ثالثی کرنے تیار ہیں
ٹرمپ افغانستان سے بالکل اسی طرح نکلنا چاہتے ہیں جیسے سابق صدر نکسن ویتنام سے نکلنا چاہتے تھے
واشنگٹن پوسٹ کی ٹرمپ پر کھلی تنقیدیں
واشنگٹن ۔ 25 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کے ایک مشہور و معروف روزنامہ نے آج ایک ایسی خبر شائع کی ہے جس میں ملک کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا ہے (ویسے ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں، وہ ہر روز کسی نہ کسی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں) ٹرمپ سے کہا جارہا ہیکہ ہندوستان کے ساتھ سابق صدر بارک اوباما نے جو خوشگوار تعلقات کا دور شروع کیا تھا، ٹرمپ اسے ملیامیٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تازہ ترین بیان جو انہوں نے دورہ پر آئے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات کے وقت دیا تھا، اسے اب ’’سفارتی بدعنوانی‘‘ کا نام دیا جارہا ہے جیسا کہ انہوں نے عمران خان سے کہا تھا کہ وزیراعظم ہند نریندر مودی نے ان سے (ٹرمپ) مسئلہ کشمیر کی یکسوئی کیلئے ثالثی کرنے کی خواہش کی تھی جس کی گونج ہندوستان کی پارلیمنٹ میں بھی سنی جارہی ہے جس کے ہند ۔ امریکہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور امریکہ ایک اور حلیف ملک سے محروم ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ نے یہ بیان دیکر دنیا کو چونکا دیا تھا جس کی ہندوستان نے فوری طور پر تردید کی اور کہا کہ مسئلہ کشمیر کی یکسوئی کیلئے مودی نے ٹرمپ سے G-20 چوٹی کانفرنس کے دوران کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں ٹرمپ کے بیان کو ’’سفارتی بدعنوانی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اخبار کا کہنا ہیکہ ہندوستان کے تجارتی ٹکراؤ کے بعد ٹرمپ کا یہ متنازعہ بیان امریکہ کو ایک ایسے حلیف ملک سے محروم کردے گا جس کی امریکہ کو ایک ایسے وقت بہت زیادہ ضرورت ہے جب چین اس خطہ میں ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اس موقع پر وزیرخارجہ ہند ایس جے شنکر نے بھی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اس نوعیت کی کسی پیشکش یا درخواست کرنے کی تردید کی ہے۔

پارلیمنٹ میں اپنے ایک خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ خصوصی طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مودی جی نے ٹرمپ سے کشمیر معاملہ میں ثالثی کرنے کی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ بہرحال تیر اب کمان سے نکل چکا ہے لیکن اس کے باوجود ٹرمپ کے ریمارک کے بعد اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنی شبیہہ درست کرنے کیلئے کہا کہ مسئلہ کشمیر ہندوپاک کا دورخی معاملہ ہے اور اس کی یکسوئی بھی دونوں ممالک کو ہی کرنی پڑے گی البتہ دونوں ممالک اگر چاہیں تو امریکہ کشمیر معاملہ میں ثالثی کرنے تیار ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے مزید کہا کہ سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور بارک اوباما نے ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار رکھا اور اب ان کے جانشین ٹرمپ سارے کئے کرائے پر پانی پھیر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ٹرمپ کوئی بھی بیان دینے یا ریمارک کرنے سے قبل اپنے مشیروں سے صلاح و مشورہ نہیں کرتے۔ افغانستان سے امریکی فوج کو باوقار انداز میں ہٹانے کیلئے وہ پاکستان کی دلجوئی کررہے ہیں کیونکہ پاکستان کے تعاون کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا۔ ٹرمپ اس وقت وہی پالیسی اپنا رہے ہیں جو برسوں قبل ویتنام جنگ کے وقت سابق صدر رچرڈ نکسن نے اپنائی تھی۔