l باوردی دہشت گرد بھی اب مسلمانوں کا برسر عام قتل کرنے لگے
l چلتی ٹرین میں داڑھی والے تین مسافرین کو گولی مارنا اتفاق نہیں
l مہلوکین میں حیدرآباد کے سید سیف الدین شامل ۔ قاتل کو بچانے کی کوشش
محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔یکم۔اگسٹ۔ملک میںکٹر پسند نوجوان اب ’کپڑوں اور حلیہ سے پہچانتے ہوئے ‘ ’……….. گولی مارو سالوں کو‘‘ پر عمل کرنے لگے ہیںاور اب ’وردی‘ والے دہشت گرد جنہیں لوگ اپنا محافظ تصور کرتے ہیں وہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے برسرعام ان کا قتل کرنے لگے ہیں۔آر پی ایف کا جوان اگر چیتن سنگھ کی جگہ ہادی ‘ مقبول ‘ یا مجیب ہوتا تو اس کے تار دہشت گرد تنظیموں سے جوڑے جانے لگتے ہے اور اس بات کی تحقیق شروع ہوجاتی کہ وہ آئی ایس آئی ‘ آئی ایس آئی ایس یا لشکر طیبہ کا رکن یا رابطہ میں تو نہیں تھا۔اس طرح کے تبصرہ ٹوئیٹر پر کئے جا رہے ہیں اور کہا جار ہا ہے کہ ملک میں نفرت کے ماحول کو فروغ دینے والی تقاریر اور ’گولی مارو سالوںکو‘ جیسے نعروں نے جو اثر کیا اس کے نتائج اب برآمد ہونے لگے ہیں۔ 2014 کے بعد سے جو صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اس کے ذریعہ ’ماب لنچنگ‘ کو اس قدر عام کردیا گیا کہ اب اگر کسی ریاست میں کٹرپسند اکثریتی طبقہ کے نوجوانوں کی جانب سے گوشت لے جانے کے الزام میں قتل کردیا جاتا ہے تو کوئی ردعمل تک ظاہر نہیں کیا جاتا ۔ ہندستان میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد دادری میں ہوئی پہلی ماب لنچنگ جس میں محمد اخلاق کو شہید کیا گیا تھا وہ سب کو یاد ہے اور سال 2015 میں اس پہلے واقعہ پر ملک بھر میں خوب ردعمل ظاہر کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد مسلسل پیش آنے والے واقعات کو بتدریج معمول کی بات تصور کرنا شروع کردیا گیا ۔ جئے پور سے ممبئی جانے والی ٹرین میں ریلوے پروٹیکشن فورس کے جوان نے گذشتہ یوم اپنے سینیئر عہدیداراور تین مسلم مسافرین کو جو داڑھی والے تھے نشاندہی کرکے قتل کیا ۔ چیتن سنگھ نے جن مسافرین کو قتل کیا ہے ان میں حیدرآباد کے علاقہ بازار گھاٹ سے تعلق رکھنے والے سید سیف الدین کے علاوہ عبدالقادر‘ محمد حسین شامل ہیں۔فورس میں موجود نوجوان جس کا تعلق اترپردیش کے ’ہاتھرس‘ سے ہے نے تین مسلم مسافرین کو نشاندہی کرکے ان کا قتل کیا ہے اور یہ کہا جار ہاہے کہ اس جوان نے اپنے سینیئر اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس کو بھی محض اسی لئے قتل کیا کیونکہ مقتول عہدیدار اس کے نظریات سے اتفاق نہیں کررہا تھا ۔ چیتن سنگھ کو ان تمام کے قتل کے بعد یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ’ہندستان میں رہنا ہے تو مودی یوگی کو ووٹ کرنا ہوگا‘ چیتن سنگھ کی جگہ اگر کوئی مسلم جوان ہوتا تو شائد اب تک اس کے لشکر طیبہ اور آئی ایس آئی ایس سے تار جوڑکر اسے دہشت گردانہ واقعہ قرار دے دیا جاتا اور ملک میں ریڈ الرٹ جاری کرکے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا لیکن اس واقعہ کے بعد روایتی انداز میں چیتن سنگھ کو حکام کی جانب سے ’ذہنی تناؤ‘ کا شکار قرار دیا جانے لگا ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ اس نے ذہنی تناؤ کی وجہ سے یہ حرکت کی ہے۔ سوشل میڈیا پر گشت کررہی ویڈیوز کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان کا تجزیہ کرنے والوں کا کہناہے کہ قاتل دہشت گرد کی جانب سے محض نشاندہی کرتے ہوئے ان افراد کو نشانہ بنا رہا تھا جو ’کپڑوں سے پہچانے جا رہے تھے‘ مخالف سی اے اے اور این آر سی کے دوران ملک کے ایک ذمہ دار قائد نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’’ جو مخالف ہیں انہیں کپڑوں اور حلیہ سے پہچاناجائے‘‘ اور چیتن سنگھ نے کپڑوں اور حلیہ سے ہی پہچان کر تین مسلمانوں کو گولی ماری ہے جبکہ دیگر مسافرین کو کوئی گزند نہیں پہنچائی اور دیگر مسافرین جو حلیہ اور کپڑوں سے مسلمان نہیں تھے وہ بے خوف تھے کیونکہ قاتل چن کر نشانہ بنا رہا تھا۔چیتن سنگھ نے مخالفین کو نہ صرف کپڑوں سے پہچانا بلکہ اس نے ملک کی مرکزی وزارت میں شامل وزیر کی جانب سے سی اے اے اور این آر سی مہم کے دوران لگائے گئے نعرہ’ دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو‘ پر عمل بھی کردیا ۔سوشل میڈیا پر جاری تبصروں میں کہا جا رہاہے کہ کپڑوں سے پہچاننے سے لیکر دیش کے غداروں کے نعروں تک پر اب عمل کیا جانے لگا ہے اور منظم انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں ورغلانے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔ گذشتہ 24گھنٹوں میں صرف ایک جئے پور۔ممبئی ٹرین میں پیش آیا واقعہ ہی نہیں بلکہ ہریانہ میں فرقہ وارانہ فساد کے دوران بھی تین افراد کی موت ہوچکی ہے اور اس واقعہ میں گڑگاؤں کی مسجد کے امام کو گولی مار دی گئی اور ان کے ساتھ مسجد میں خدمت انجام دینے والے شخص کو بھی گولی مار کر قتل کردیا گیا۔اس کے علاوہ یوٹیوب پر ایک نفرت انگیز چینل کے نام نہاد صحافی کی تقریر بھی سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہے جس میں سریش چاونکے عدالت کو انتباہ دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کاشی معاملہ میں ہندو فریق کے حق میں فیصلہ دے یا ملک میں ایک اور ’کارسیوا‘ ہوگی۔ اس طرح کی نفرت انگیزویڈیو وائرل ہونے سے آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور اس کیلئے ہی حکومت کی جانب سے ایسے واقعات پر مکمل خاموشی اختیار کی جار ہی ہے۔