آتجھ کو سناتا ہوں تجھے تیرا فسانا
ممکن ہو تو آواز میں آواز ملانا
ٹوئٹ سے خوف زدہ حکومت
وزیراعظم نریندر مودی ساری دنیا کے قائدین کے ساتھ دوستی رکھنے کو فخر محسوس کرتے ہیں اور انہیں عالمی سفر میں بھی دلچسپی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کو عالمی قائدین کی تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ ہندوستان میں زرعی قوانین کی منظوری کے بعد ایک بھونچال سا مچا ہے ۔ کسان سرحدوں پر جمع ہیں ۔ مودی حکومت کے خلاف احتجاج میں شدت کا اعلان کرتے جارہے ہیں ۔ زرعی قوانین پر کئی دور کی بات چیت ناکام ہونے کے بعد اب کسانوں نے احتجاج کو اس وقت تک واپس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے تاوقتیکہ مودی حکومت کے 3 سیاہ زرعی قوانین کو واپس نہیں لیا جاتا ۔ کسان احتجاج سے قومی اور عالمی سطح پر مودی حکومت کو رسوا کیا ہے ۔ اس لیے بی جے پی قائدین یا بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کی حکومتوں نے ہر اس شخصیت کو نشانہ بنانا شروع کیا جو زرعی قوانین کے خلاف آواز اُٹھ رہی ہے ۔ اسی طرح عالمی سطح پر ہالی ووڈ اداکاروں اور سماجی کارکنوں نے تنقیدی ٹوئیٹ کیا تھا ۔ ان میں سماجی و ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے ٹول کٹ کو ٹوئیٹ کیا تھا ۔ اس ٹول کٹ کو بنگلور کی ماحولیاتی کارکن دشاروی نے بھی دوبارہ ٹوئیٹ کیا تو دہلی پولیس اسپیشل سیل کی سائبر یونٹ نے اس کارکن کو گرفتار کرلیا ۔ فرائڈے فار فیوچر مہم کی بانیوں میں شامل دشا روی نے کہا کہ اس نے تو صرف گریٹا تھنبرگ کی ٹوئیٹ کو ایڈٹ کر کے ٹوئیٹ کیا تھا لیکن پولیس نے اس چھوٹی سی ٹوئیٹ پر اس قدر ہنگامہ کیا تو اندازہ ہوتا ہے کہ مودی حکومت تک کسانوں کا احتجاجی شور نہیں پہونچا البتہ عالمی سطح پر کیا گیا معمولی ٹوئیٹ نے اس حکومت کی نیندیں حرام کردیں ۔ 4 فروری کو دہلی پولیس نے ٹول کٹ کو لے کر کیس درج کیا تھا اور ٹول کٹ معاملہ میں بنگلور کی ماحولیاتی کارکن کی گرفتاری ایک پہلی کارروائی ہے ۔ مودی حکومت اس طرح بے قصور افراد کی گرفتاری کے ذریعہ اپنی سرکاری مشنری کی طاقت سے عوام الناس کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے ۔ کسان آندولن کے مسئلہ پر ہندوستان کی بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہورہی ہے ۔ حکومت اور پولیس یہ پتہ چلا رہی تھی کہ آخر ہندوستان کو عالمی سطح پر رسوا کرنے کے لیے بنائی گئی پالیسی کا پتہ چلایا جائے ۔ عالمی سطح پر جو ٹول کٹ بنایا گیا ہے وہ دراصل مودی حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس سے کسانوں کے احتجاج کے حوالے سے مودی حکومت کو بدنام کیا جائے اگر یہ سازش ہے تو حکومت اس کا نوٹ لے ۔ لیکن جب یہ معاملہ عوام الناس کے احساسات سے مربوط ہے تو پھر اظہار خیال کی آزادی اور دیگر شہری حقوق کو سلب کرنے کا بھی مودی حکومت کو اختیار نہیں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک کارروائی کرنا چاہتی ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ گر کوئی کسی تنظیم یا گروپ کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے کسی ایک ملک اور اس کی حکومت کو بدنام کررہی ہیں تو اس کے خلاف قانونی کارروائی واجب ہے ۔ مجرمانہ سازش رچنے اور نفرت کو فروغ دینے کے الزامات کسی کی گرفتاری اصولی بات ہوتی ہے لیکن جب یہ کارروائی بھی یکطرفہ ہو تو پھر اسے سرکاری زیادتی قرار دیا جائے گا ۔ اس سے وزیراعظم مودی کی شبیہہ کو خطرہ پہونچے گا ۔ عالمی سطح پر ہندوستان کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے ۔ وزیراعظم نے خود کو عالمی مدبر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے سابق صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی ذاتی دوستی کے لیے بڑے پیمانہ پر خرچ کیا ہے ۔ ان پر یہ بھی الزام ہے کہ مودی نے ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کے لیے مہم چلائی تھی ۔ ان کی یہ تمام کوششیں رائیگاں جانے لگیں اور عالمی سطح پر تنقیدوں کا جال پھیلتا گیا ۔ ایسے میں حکومت کو فکر لاحق ہوگئی کہ اسے اس جال سے کس طرح نکلنا چاہئے ۔ اگر مودی حکومت چاہتی ہے کہ وہ بدنامی سے باہر آئے تو فوری طور پر زرعی قوانین کے معاملہ میں کسانوں کا اعتماد حاصل کرے ۔ حب الوطن ہندوستانیوں پر غداری کے مقدمات عائد کرنے کا عمل بند کردیا جائے ۔ لو جہاد کے پاگل پن کو ختم کردیا جائے ۔ ایک اچھی حکمرانی کے لیے سربراہ مملکت کو کئی اچھی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ قومی اور عالمی سطح پر حکمراں کا امیج بہتر ہوسکے ۔ وزارت خارجی امور کو یہ کام سونپ دیا گیا ہے کہ وہ سوشیل میڈیا کی مہم پر قابو پائے تاکہ مودی حکومت کی شبیہہ پر آنے والی آنچ کو کم کیا جاسکے ۔ ٹوئیٹر پر اب تک ریہانہ ، بہرس اور دیگر نے جو کچھ ردعمل ظاہر کیا اس پر زیادہ فکر مند ہونے کے بجائے حکومت کو اپنی پالیسیوں اور طرز حکمرانی پر توجہ دینی ہوگی ۔
