ٹکٹ کے لئے شوہر کے ’مدمقابل‘ آنے والے بی جے پی وزیر کی سابق ای ڈی افیسر کے ہاتھوں ہار

,

   

مذکورہ لیڈی منسٹر کو گرم آلو کے طرح ہٹادیاگیا
بی جے پی کے انداز کی یہ خواتین کو بے اختیار بنانے کی انتخابی کہانی ہے۔ مذکورہ پارٹی جس نے سواتی سنگھ کو امیدوار نہیں بنایا ہے وہ 2017میں لکھنو کے سروجنی نگر سے ایک ”اتفاقی“ امیدوار تھیں‘جس پر جیت نے انہیں یوگی حکومت میں وزراتی کرسی دلائی ہے‘ مگر اب وہ2022کے انتخابات میں دوبارہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔

گرم آلو کی طرح اس لیڈی منسٹر کوہٹادیاگیا اور ٹکٹ راجیشوار سنگھ سابق جوائنٹ ڈائرکٹر انفارسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو دیاگیاہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ سواتی او ران کے شوہر دیاشنکر سنگھ دونوں ہی کھلے عام علیحدہ طور پر اس سیٹ کے لئے کوشش کررہے تھے‘ جومبینہ خاندانی اختلافات کی قیمت پر بھی کی جانے والی کوشش کا حصہ ہے۔

بی جے پی حامیوں کا کہنا ہے کہ سواتی کا سیاسی سفر ایک حادثہ تھا اور پہلے ہی دن سے وہ تنازعات میں گھیرے ہوئی رہی ہیں۔

وہ ایک ہاوز وائف تھیں اور اس وقت سرخیوں میں ائیں جب 2016جولائی میں ان کے شوہر دیاشنکر سنگھ نے بی جے پی چیف مایاوتی کے خلاف قابل مذمت ریمارکس کئے تھے۔

سنگھ کے خلاف بی ایس پی نے بڑے پیمانے پراحتجاجی مہم شروع کی۔ انہیں گرفتار کیاگیا اور پارٹی سے برطرف بھی کردیاگیاتھا حالانکہ کھلے عام پارٹی ان کے ساتھ اپنی حمایت کو جاری رکھے ہوئے تھی۔

دیاشنکر سے اظہار یگانگت میں مذکورہ بی جے پی سواتی کو خواتین شعبہ کاصدر بنادیاتھا۔ مذکورہ اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کے لئے سروجنی نگر کاٹکٹ بھی دیاتھا۔

انہو ں نے الیکشن جیتا‘ ہمدردی میں انہیں بڑے پیمانے پر ووٹ ملے اور جب بی جے پی نے ریاست میں 2017میں حکومت تشکیل دی تو انہیں منسٹر بنایاگیاتھا۔

بی جے پی او راس کی ساتھی جماعتیں 403میں سے 312اسمبلی حلقوں پر جیت کے ساتھ بھاری اکثریت سے نہ صر جیت حاصل کی بلکہ حکومت بھی تشکیل دی تھی۔

بی جے پی دور حکومت میں دیا شنکر کی برطرفی کو خاموشی کے ساتھ ریاستی یونٹ کا نائب صدر 2018فبروری میں نامزد کیاگیاتھا۔

سواتی کے پانچ سالہ وزراتی معیاد میں وہ مختلف عہدوں پرتھیں تاہم وہ تنازعات میں بھی گھیری رہیں‘ جس میں منسٹر بننے کے ساتھ ہی ایک بیر بار کا افتتاح سے پیدا شدہ تنازعہ بھی شامل ہے۔

سخت زبان اور مغرور لب ولہجہ کی مالک بطور منسٹر انہوں نے بہت سارے دشمن پید ا کئے ہیں۔اس کی وجہہ سے وہ ہر وقت سرخیو ں میں رہا کرتی تھیں۔

حالیہ دنوں میں پھر ایک مرتبہ میڈیاکی سرخیوں میں وہ جب ائیں تک ان کے شوہر کے ساتھ اس الیکشن میں ٹکٹ حاصل کرنے کے لے سیاسی لڑائی کے متعلق خبریں منظرعام پرائی تھیں۔

ٹکٹ پر اپنے دعوی کا وہ کھلے عام نہ صرف اظہار کررہی تھیں بلکہ اپنے گھر کے باہر انہوں نے اسی طرح کا ایک ہورڈنگس بھی لگادیاتھا۔ ایک خاندان کے لئے ایکٹ پر پارٹی کے قواعد میں وہ دیاشنکر پر اپنے آپ کوترجیح چاہتی تھیں۔

اسکی وجہہ سے پارٹی کو بہت ساری شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ بی جے پی کی جانب سے سروجنی نگر سیٹ کے لئے امیدوار کے طور پر راجیش وار سنگھ کا انتخابات کرنے سے قبل کسی بھی قسم کے تنازعہ کو درکنار کرنے کے لئے دونوں کو ہی ٹکٹ نہیں دینے کی کہانیاں گشت کررہی تھیں۔

اس طرح کی افواہیں پھیلانے کی بھی کوششیں کی گئی کہ اگر پارٹی سواتی کی کو ٹکٹ نہیں دیتی ہے تو وہ سماج وادی پارٹی میں شامل ہوجائیں گی مگر بی جے پی نے اس کی طرف کوئی توجہہ نہیں دی۔

پہلے دن سے ہی یہ بات عیاں تھی کہ ایس پی میں سواتی سنگھ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے او راسی وجہہ سے مجبور او ربے بس سواتی سنگھ نے پارٹی کے فیصلے کوقبول کرنے میں بہتری سمجھی۔

دوسری جانب دیاشنکر نے بھی اس کو ”بہتر فیصلہ“ قراردیا اور اس نے پارٹی کی ہدایت پر سواتی کی جیت کے لئے کام کیااور اب پارٹی کی خواہش پر راجیشوار سنگھ کی جیت کے لئے بھی کام کریں گے۔