ٹک ٹاک سے چین کررہا ہے امریکہ کی جاسوسی

   

امجد خان
امریکہ اور چین میں خاص طور پر جاسوسی کے شعبہ میں زبردست مسابقت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ چین میں فروغ دیئے گئے کئی ایپس (ایپلکیشن) کو دنیا بھر میں مقبولیت کے باوجود امریکہ شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اب امریکہ نے واضح طور پر کہا ہیکہ چین TIK TOK کے ذریعہ امریکی حکومت انتظامیہ اور امریکی اداروں کی جاسوسی کرسکتا ہے۔ گذشتہ ہفتہ ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکیٹیو آفیسر سے پانچ گھنٹے طویل پوچھ تاچھ کی گئی۔ امریکی قانون سازوں کا ماننا ہیکہ چین، ٹک ٹاک کو جو دنیا بھر میں کافی مقبول ہے، امریکیوں کی جاسوسی کیلئے استعمال کرسکتا ہے۔ ٹک ٹاک چین کی جزوی ملکیت ہے۔ واضح رہیکہ امریکہ اس شارٹ ویڈیو وپب پر پابندی عائد کرنے پر غور کررہا ہے۔ اگرچہ امریکی قانون سازوں نے ٹک ٹاک کو جو دراصل چینی کمپنی Byte Dance کی ملکیت ہے جاسوسی کا ایک امکانی ذریعہ قرار دیا ہے لیکن ان لوگوں نے یہ بتانے سے گریز کیا ہے کہ امریکی حکومت کیسے ٹکنالوجی کی کمپنیوں کو استعمال کرتی ہیں تاکہ عالمی سطح پر کی جانے والی جاسوسی کو روکا جاسکا۔ ٹکنالوجی اس قدر ترقی کر گئی ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر جاسوسی کی جارہی ہے۔ حکومتوں، حکومتی اداروں اقتدار پر فائز شخصیتوں، سیاستدانوں، صحافیوں، ادیبوں اور حقوق انسانی کے جہدکاروں سے لیکر صنعتکاروں اور فلم اداکاروں کی بھی جاسوسی کی جارہی ہے۔ امریکہ نے چین پر یہ بھی الزام عائد کیا ہیکہ وہ امریکی اداروں کی سرگرمیوں کو ٹھپ کرنے کیلئے ہائیکرس کا استعمال کررہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ہائکرس شہری ہوا بازی بیکنگ سسٹم (مالیاتی ادارہ) وہ دفاعی اداروں اور میڈیکل سسٹم کو خطرناک حد تک نشانہ بناسکتے ہیں۔ جہاں تک ٹک ٹاک کا سوال ہے 150 ملین سے زیادہ امریکی اس ویب کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ گوگل میٹا اور Apple پر بھی یہ الزامات عائد ہوتے رہے ہیں کہ وہ غیر امریکی شہریوں کی جاسوسی میں ملوث ہیں۔ امریکہ میں اس تعلق سے فارن انٹلیجنس سرویلنس ایکٹ FISA موجود ہے جس کی دفعہ 702 اس بات کی گنجائش فراہم کرتا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں بنا کسی وارنٹ کے بیرونی باشندوں کی اور ان کے ای میل، فون اور دوسری آن لائن کمیونکیشن کی جاسوسی کرسکتے ہیں۔ تاہم امریکی شہریوں کو بناء وارنٹ کے تلاش کے خلاف بعض استثنیٰ حاصل ہیں۔ امریکی حکومت نے یہ واضح کردیا ہیکہ یہ حقوق بیرونی باشندوں کو نہیں دیئے جاسکتے۔ اس معاملہ میں نیشنل سیکوریٹی ایجنسی (NSA) فیڈرل بیورو آف انوسٹیگیشن (FBI) اور سنٹرل انٹلی جنس ایجنسی (CIA) کے نام لئے جاتے ہیں جنہیں جاسوسی کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اگرچہ حکومتوں کیلئے بیرونی ممالک میں جاسوسی کرنا عام سی بات ہے واشنگٹن اس معاملہ میں سب سے آگے ہے اور وہ جاسوسی کے ذریعہ حاصل ہونے والی معلومات دوسرے ملکوں کے ساتھ شیئر کرنے کا پابند نہیں ہے۔ پھر بھی وہ برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے قریبی حلیف ملکوں سے اس قسم کے معلومات شیئر کرتا ہے۔ امریکہ اگرچہ چین پر مختلف ایپس کے ذریعہ جاسوسی کرنے کے الزامات عائد کرتا رہا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسے اسرائیل سے بھی جاسوسی کا خطرہ لاحق ہے۔ ماضی میں جاسوسی کے کئی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن میں اسرائیلی جاسوسی نٹ ورک کے ملوث ہونے کا پتہ چلا لیکن امریکہ اسرائیلی جاسوسی نٹ ورکس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ ایسے میں چین کے خلاف وہ کیا کرسکتا ہے۔ ویسے بھی امریکہ پہلے کی طرح طاقتور اور بااثر نہیں رہا ہے۔ چین بار بار چیلنج کرتا ہے لیکن وہ اس کے خلاف کچھ نہیں کرپاتا روس نے بھی اسے پریشان کر رکھا ہے۔ اس کو بھی وہ نقصان نہیں پہنچا سکا۔ ہاں صرف دھمکیاں دیتے رہا ہے۔ امریکہ میں بے شمار اسرائیلی جاسوسوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا لیکن اسرائیلی خفیہ نٹ ورکس کے ایجنٹوں کا وہ بال بکا نہیں کرسکا۔ ہاں امریکہ ،عرب اور مسلم ملکوں میں بہت زیادہ سرگرم دکھائی دیتا ہے۔ انہیں دھمکیاں دینے انہیں مرعوب کرنے کے معاملہ میں بھی اس کی سرگرمی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بہرحال ہم ٹک ٹاک کی بات کررہے تھے۔ امریکی صدر جوبائیڈن انتظامیہ ٹک ٹاک پر پابندی اور سیکشن 702 کی تجدید کے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے جسے وہ امریکیوں کے تحفظ و سیکوریٹی کا اہم آلہ قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ حال ہی میں ٹک ٹاک کے چیف ایگزیکیٹیو افیسر SHOU Zicheus پوچھ تاچھ کے دوران ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کو اپنے جوابات سے مطمئن نہیں کرسکے اگرچہ امریکہ چین اور امریکیوں کی جاسوسی کے الزامات عائد کرتا رہا ہے لیکن ایڈورڈ اسٹوڈن نے 2013ء میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں بیرونی ملکوں میں بڑے پیمانے پر جاسوسی کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ TIK TOK شارٹ فام ویڈیو ہوسٹنگ سرویس فراہم کرنے والا ادارہ ہے جو چینی کمپنی Byte Dance کی ملکیت ہے جس پر تین سیکنڈس سے لیکر 10 منٹ دورانیہ کے ویڈیوز اپ لوٹ کئے جاسکتے ہیں۔ Byte Dance چین میں Douyin بھی چلاتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ چین سے جاسوسی کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے ہندوستان نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان، بنگلہ دیش، ایران، پاکستان اور شام میں بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہے۔