ٹی آر ایس اور مجلس میں میچ فکسنگ، اقلیتی مسائل نظرانداز

   

مسلم تحفظات، مسجد یکخانہ اور میٹرو ریل پر موقف کی وضاحت کا مطالبہ، محمد علی شبیر کی پریس کانفرنس
حیدرآباد۔16 ۔ جولائی (سیاست نیوز) قانون ساز کونسل میں سابق قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے الزام عائد کیا کہ ٹی آر ایس اور مجلس اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے اقلیتوں کے مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اسمبلی کے 18 اور 19 جولائی کے اجلاس میں پھر ایک بار دونوں پارٹیوں کے درمیان ڈرامہ بازی دیکھنے کو ملے گی۔ محمد علی شبیر نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی اجلاس میں اپنے ووٹ بینک کو خوش کرنے کیلئے مجلس کے فلور لیڈر مسلمانوں کو درپیش مسائل پیش کریں گے اور چیف منسٹر روایتی انداز میں تیقنات اور وعدوں سے کام لیں گے۔ اس طرح ایک دوسرے کے کانوں کو خوش کرتے ہوئے مسلمانوں کو پھر ایک بار دھوکہ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کو مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ گزشتہ 6 برسوں میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات ، اسلامک کلچرل سنٹر کی تعمیر اور پرانے شہر میں میٹرو ٹرین کے آغاز کے وعدے جوں کے توں برقرار ہے۔ مجلس نے ان وعدوں کی تکمیل کیلئے حکومت پر کبھی اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ حال ہی میں سڑک کی توسیع کے نام پر مسجد یکخانہ عنبرپیٹ شہید کردی گئی اور گزشتہ دنوں کتہ گوڑم میں محکمہ جنگلات کے عہدیداروں نے ایک اور مسجد کو شہید کردیا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ بابری مسجد کے نام پر سیاست کرنے والی مقامی سیاسی جماعت کو تلنگانہ کی شہید کردہ مسجدوں کی فکر کیوں نہیں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ مجلسی قیادت نے آج تک ان مساجد کے سلسلہ میں حکومت سے نمائندگی نہیں کی اور نہ انہیں دوبارہ تعمیر کرنے میں دلچسپی ہے۔ محمد علی شبیر نے 12 فیصد مسلم تحفظات ، مسجد یکخانہ ، مسجد کتہ گوڑم اور پرانے شہر میں میٹرو ریل کے مسئلہ پر حکومت اور اس کی حلیف جماعت سے موقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مجلس اور ٹی آر ایس کے درمیان میچ فکسنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجلس عوامی مسائل کی یکسوئی میں سنجیدہ ہے تو وہ مسلمانوں کی تعلیم اور معاشی ترقی سے متعلق 12 فیصد تحفظات پر خاموش کیوں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میٹرو ریل اور اسلامک سنٹر کے نام پر عوام کو بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مجوزہ اسمبلی اجلاس میں مجلسی فلور لیڈر کی جذباتی تقریر ہوگی اور چیف منسٹر کھوکھلے وعدوں کے ذریعہ انہیں خاموش کردیں گے ۔ اسمبلی میں تقریروں کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور مسلمانوں کے وعدوں پر عمل آوری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میونسپل ایکٹ کی منظوری کیلئے اسمبلی اور کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جبکہ ریاست میں خشک سالی کی سنگین صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ 580 منڈلوں میں 450 منڈل خشک سالی سے متاثر ہیں۔ انہوں نے اجلاس میں کم از کم 8 دن کی توسیع کا مطالبہ کیا ۔ سابق قائد اپوزیشن نے حکومت پر صحت اور معاشی امور کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا ۔ راجیو آروگیہ شری اسکیم کے تحت حکومت دواخانوں کو 1700 کروڑ روپئے باقی ہے جس کے نتیجہ میں کارپوریٹ ہاسپٹل غریبوں کے علاج سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سال میں تلنگانہ ریاست کا قرض 69517 کروڑ سے بڑھ کر ایک لاکھ 80 ہزار 239 کروڑ ہوچکا ہے ۔ کارپوریشن کے قرض ، بانڈس اور بینک گیارنٹی اس کے علاوہ ہے ۔ انہوں نے ریاست کے مالیاتی موقف پر وائیٹ پیپر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ محمد علی شبیر نے اقلیتی اقامتی اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی کمی کی شکایت کی اور کاما ریڈی اسکول کی زبوں حالی کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسکول میں باتھ رومس کے دروازے تک نہیں ہے اور بچوں کو تین دن سے استعمال کے لئے پانی موجود نہیں۔ وارڈن اور پرنسپل اسکول میں موجود نہیں رہتے۔ غیر معیاری غذاؤں کے سبب طلبہ کی حالت بگڑ رہی ہے ۔ 2007 ء میں کانگریس حکومت نے 13 کروڑ کے خرچ سے اقامتی اسکول کی عالیشان عمارت تعمیر کی تھی لیکن کلکٹر کاما ریڈی نے عمارت پر قبضہ کرتے ہوئے بچوں کو سڑک پر کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 8 دن میں طلبہ کے مسائل حل نہیں کئے گئے تو وہ دھرنا منظم کریں گے ۔ اقامتی اسکولوں میں کارپوریٹ سہولتوں سے متعلق حکومت کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ کانگریسی قائد نے کہا کہ ناسا کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے اسکولوں کی زبوں حالی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست میں 4000 سے زائد سرکاری اسکول بند ہوچکے ہیں، ان میں پرانے شہر کے کئی اسکولس شامل ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں کوئی عہدیدار کام کرنے تیار نہیں۔ حکومت نے ریکارڈ روم کو مہربند کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ اس فیصلہ سے کیا فائدہ ہوا۔ وقف بورڈ کی جانب سے جاری کردہ کئی این او سی قیمتی جائیدادوں کو ناجائز قابضین کے حق میں کرنے کا سبب بنے ہیں۔ ان معاملات کی تحقیقات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔