ٹی ایس آر ٹی سی کوخانگیانے کی کوشش

   

نوازشات کی یورش ہے اپنے دشمن پر
ہم اُن کے دوست ہیں ، ہم پر ستم کی بارش ہے
ٹی ایس آر ٹی سی کوخانگیانے کی کوشش
تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت نے بالآخر ٹی ایس آر ٹی سی کو خانگیانے کی جانب اشارہ دے دیا ہے۔ریاست تلنگانہ میں3000 تا4000 روٹس پر خانگی بس آپریٹرس کو اپنی گاڑیاں چلانے کی اجازت دی جائے گی اور ان خانگی آپریٹرس کو باقاعدہ لائسنس بھی جاری کئے جائیں گے۔ خانگی گاڑیاں چلانے کیلئے پرمٹ کی اجرائی کے بعد آہستہ آہستہ پوری ریاست میں آر ٹی سی کو خانگیانے کا فیصلہ کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا جائے گا۔ حکومت کا یہ منصوبہ دونوں لحاظ سے عوام کے حق میں تکلیف دہ ہوگا۔ خانگیانے کی وجہ سے پرائیویٹ بس آپریٹرس مسافروں سے من مانی کرایہ وصول کریں گے اور پھر عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے نام پر مشکلات سے دوچار کردیا جائے گا۔ اس طرح ریاست میں خانگی آپریٹرس کو جو کہیں نہ کہیں سیاسی وابستگی رکھنے والے بڑے کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں خفیہ طریقہ سے حکمراں پارٹی کے سربراہ کی مدد فراہم ہوگی۔ آر ٹی سی ہڑتال کے طول پکڑنے کی وجہ حکومت کی سرد مہری بھی ہے اور حکومت نے اپنے خفیہ منصوبہ کے تحت ہی آر ٹی سی ملازمین کی اس ہڑتال کو اہمیت نہیں دی ۔ گزشتہ 25 دنوں سے جاری آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال نے ملازمین کی زندگی کو سرتاپا داغ داغ بنادیا ہے۔ حکومت کے میٹھے پھیکے منصوبوں اور تیقنات کی دیگ کے نیچے آگ کو تیز کرتے ہوئے ہڑتالی ملازمین کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ حکومت نے اس ہڑتال کو ہمدردی کی نگاہ سے ہی نہیں دیکھا اور نہ ہی ملازمین کے مستقبل کے روزگار پر توجہ دی۔ نہ جانے چیف منسٹر اور ان کے حواریوں نے مل کرآر ٹی سی کو کمزور کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ 3000 تا 4000 روٹس پر بسوں کو چلانے کے لئے جب خانگی آپریٹرس کو پرمٹس جاری کئے جائیں گے تو ان خانگی آپریٹرس کی کارکردگی اور من مانی کا جائزہ لینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ جہاں کہیں سرکاری کام خانگیانے کی بات کی جاتی ہے وہاں خالص منافع خوری کو ذہن میں رکھ کر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ خانگی آپریٹرس کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے ہی یہ سب ڈرامہ بازی کی گئی ہے تو پھر ہزاروں آر ٹی سی ملازمین کو بے موت مارنے کی ترکیب ڈھونڈ نکالی گئی ہے، اس سے حکومت کا غیر ہمدردانہ اور تحکمانہ رویہ ظاہر ہوتا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنی حکومت کی کارکردگی اور اپنے تجربات کی وجہ سے سارے ملک کی ریاستوں کے چیف منسٹروں کیلئے رول ماڈل بن گئے تھے، مگر اب دوسری میعاد میں انہوں نے رول ماڈل کو مزید مستحکم کرنے کے بجائے اسے کمزور کرنے والے کام شروع کردیئے۔ آنے والے دنوں میں وہ کابینی اجلاس میں ٹی ایس آر ٹی سی کی جگہ خانگی بسوں کو چلانے کے پرمٹس جاری کرنے کا فیصلہ کریں گے ۔ گویا یہ فیصلہ ٹی ایس آر ٹی سی کے ہڑتالی ملازمین کو زندہ درگور کردینے کے مترادف ہے۔ اپوزیشن مسلسل احتجاج کررہی ہے مگر چیف منسٹر کا کہنا ہے کہ ٹی ایس آر ٹی سی کی یہ ہڑتال حکومت کوبلیک میل کرنے کے مترادف ہے۔ تہوار کے موقع پر ہڑتال کرنا عوام کو مشکلات سے دوچار کردینے کے مترادف ہے اس لئے حکومت سوچ رہی ہے کہ آر ٹی سی کو خانگی آپریٹرس کے حوالے کیا جائے۔ ہر علاقہ میں الگ الگ خانگی آپریٹرس کام کریں گے، ان آپریٹرس کا اپنا اُصول ہوگا اور ان سے کوئی سوال بھی نہیں کرسکے گا ۔ اس کیس میں حکومت آگے چل کر کچھ نہیں کرپائے گی تو مسائل مزید سنگین ہوں گے۔ ہائی کورٹ نے آر ٹی سی ہڑتالی ملازمین کی درخواست پر سماعت تو شروع کردی مگر اس عدالت نے بھی حکومت اور یونین کو دوستانہ انداز میں مسئلہ کی یکسوئی کا مشورہ دیا۔ عدالت نے یونین قائدین کو یہ بھی کہا کہ راتوں رات آر ٹی سی کو حکومت میں ضم نہیں کیا جاسکتا۔ گویا عدالت کا رویہ بھی موافق حکومت ظاہر ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کا حل نکالنے کیلئے حکومت، یونینوں اور عدلیہ کو ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ ٹی آر ایس حکومت کے سربراہ اس وقت گڈ گورننس کی بجائے بیاڈ گورننس کی طرف جارہے ہیں۔ مسائل سے نمٹنے کا طریقہ کار مختلف دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت اور ملازمین کے درمیان اختلافات کو یوں محاذ آرائی کے دہانے پر لاکر کھڑا کرنا کسی بھی صورت مناسب نہیں ہے۔