کوششِ مسلسل اب رنگ پر ہے آئی سی
رات کے اندھیروں میں صبحٔ نو ہے چھائی سی
ملک کی اٹھارہویں پارلیمنٹ تشکیل پا گئی ہے ۔ نومنتخب ارکان نے حلف بھی لے لیا ہے ۔ اب ایوان میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب عمل میں آنے والا ہے اور پھر حسب معمول پارلیمانی کام کاج شروع ہوگا ۔ عوامی مسائل اٹھائے جائیں گے ۔ حکومت اپنے موقف کو پیش کرے گی ۔ اپوزیشن کی جانب سے اپنی رائے رکھی جائے گی ۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں بھی ہونگی اورجوابی تنقیدیں بھی کی جائیں گی ۔ یہ سارا کچھ پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے ۔ ہم نے گذشتہ دو لوک سبھا کی معیادوں میںدیکھا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین کسی طرح کا کوئی تال میل نہیں رہ گیا تھا ۔ حکومت کی جانب سے عددی طاقت کے زعم میں کام کیا جا رہا تھا ۔ اپوزیشن کو خاطر میں لانے حکومت اور اس کے ذمہ دار قطعی تیار نہیں تھے ۔ اپوزیشن کی صفوں میں بھی غیر معمولی کمزوری محسوس کی جا رہی تھی ۔ تاہم اب صورتحال میں تبدیلی آئی ہے ۔ جہاںحکومت کی عددی طاقت کم ہوکر رہ گئی ہے اور بی جے پی کو تنہا اکثریت بھی حاصل نہیں ہے اورا پوزیشن کی عددی طاقت دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہے تو ایوان میں اب ہر ایک کی ذمہ داری میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ اپوزیشن کوا پنا رول تعمیری اور مستحکم انداز میںادا کرنے کی ضرورت ہے تو ساتھ ہی حکومت کو پارلیمانی روایات اور جمہوریت کے مطابق کام کاج کو آگے بڑھانے کا ذمہ بھی قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا چاہئے ۔ ملک کے عوام نے انتہائی جارحانہ انتخابی مہم کے بعد اپنی رائے دیدی ہے ۔ کسی کو اقتدار دیا ہے تو کسی کو اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ سنایا ہے ۔ سبھی فریقین نے عوام کے اس فیصلے کو قبول بھی کرلیا ہے اورا س کے مطابق انہیں اب پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں ہی جگہ اس کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ پارلیمنٹ ملک کی جمہوریت کا مقدس ترین ادارہ ہے اور اس کی اہمیت اور افادیت کا سب کو بطور خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سبھی کو یہ احساس ضرور ہوگیا ہے کہ نہ کسی کا اقتدار مستقل ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی کی عددی طاقت ہمیشہ قائم رہنے والی ہے ۔ عوام فیصلہ کرتے ہیں اور عوام کی توقعات کے مطابق کام کیا جانا چاہئے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے عوام جس کسی کو چاہے اقتدار پر فائز کرسکتے ہیں اور جس کسی کو چاہے اقتدار سے دور رکھ سکتے ہیں۔ عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے جس کو جو ذمہ داری عوام نے دی ہے اس کو پورا کیا جانا چاہئے ۔ پارلیمنٹ کو عوامی توقعات کے مطابق چلانے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور اپوزیشن کو بھی اس میں اپنا تعمیری رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ سابق کی طرح محض سیاسی اختلاف کو بنیاد بناکر پارلیمانی روایات سے انحراف نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ایوان کی اہمیت کو بحال کرتے ہوئے اہمیت کے حامل مسائل پر ایوان میں مباحث کروائے جانے چاہئیں۔ حکومت کو جہاں فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے وہیں اسے اپوزیشن کی رائے کا بھی احترام کرنا چاہئے ۔ اپوزیشن کی رائے کا جائزہ لینا چاہئے اور اگر اپوزیشن کی جانب سے کچھ ٹھوس اور مثبت تجاویز وغیرہ پیش کی جاتی ہیں تو ان کو قبول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جانی چاہئے ۔ ملک کو درپیش اہمیت کے حامل مسائل پر سنجیدگی سے غور و خوض کرتے ہوئے ایوان کے ذریعہ فیصلے کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ یہ صورتحال ہمیں گذشتہ دو معیادوں میں دیکھنے کو نہیں مل پائی تھی ۔ تاہم تبدیل شدہ حالات اور منظر نامہ میں پارلیمنٹ کی روایات کو بحال کیا جانا چاہئے ۔ عوام کی نبض کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق کام کیا جانا چاہئے کیونکہ چاہے حکومت ہو یا پھر اپوزیشن جماعتیں ہوںسبھی کو عوام سے ہی رجوع ہونا پڑتا ہے اس لئے عوامی توقعات کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔
آزادی کے بعد سے ہمیشہ دیکھا گیا تھا کہ ایوان کے ذریعہ جہاںکہیںاہم ترین فیصلے کئے گئے ہیں ان پر ایوان میں تفصیلی مباحث کروائے گئے تھے ۔ حکومتوں نے جہاں اپنا موقف ایوان کے ذریعہ پیش کیا تھا وہیں اپوزیشن کو بھی اپنی رائے پیش کرنے کا پورا موقع دیا گیا تھا ۔ ایوان میںکسی کی اجارہ داری کی روایت ہندوستان میں کبھی نہیں رہی ۔ جب کبھی اپوزیشن کی تجاویز بہتر رہیں ان کو قبول بھی کیا گیا تھا ۔ اب بھی سیاسی اختلافات کو ایوان سے باہر رکھتے ہوئے ایوان میں سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایوان میں موجود ہر رکن پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایوان کے تقدس اور اس کے احترام کو برقرار رکھے ۔