چھائوں میں جو ساتھ ہیں ان سے کہو
دھوپ کو بھی آزمانا چاہئے
پارلیمنٹ میں ایک بار پھر سے تعطل کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ ایوان کا کام کاج حکومت کے غیر لچکدار موقف اور اپوزیشن کے احتجاج کے نتیجہ میں متاثر ہونے لگا ہے ۔ جہاں حکومت اپنے ایجنڈہ اور پروگرام کے مطابق ایوان کو چلانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل پر ایوان میں مباحث ہوں ۔ اظہار خیال کیا جائے اور حکومت ان کے سوالات کے جواب دے ۔ اس سارے معاملے میںالزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بھی چل رہا ہے ۔ ساری صورتحال پیچیدہ ہوگئی ہے اور حکومت نہ اپنے موقف میںلچک پیدا کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں اپنے موقف میں کسی طرح کی تبدیلی کرنا چاہتی ہیں۔صورتحال تعطل والی پیدا ہوگئی ہے ۔ ایک یا دو دن ایوان کی کارروائی کو بہتر انداز میں چلنے کا موقع دیا گیا تھا تاہم آج پھر سے ایوان میں ہنگامہ شروع ہوگیا اور اپوزیشن اور حکومت کے مابین ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوئی ہے ۔ جہاں حکومت کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں پر عمدا ایوان کی کارروائی میں خلل پیدا کرنے کا الزام عائد کیا جار ہا ہے وہیں اپوزیشن جماعتیں حکومت پر سنگین نوعیت کے مسائل پر غیرسنجیدہ رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت کے کام کاج پر بھی اثر ہو رہا ہے اور اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل پر بھی کوئی پیشرفت نہیں ہو پا رہی ہے ۔ سارے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ہی فریقین کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایوان کی کارروائی کو ایک نظم کے ساتھ چلایا جاسکے ۔ جو سرکاری کام کاج ہے وہ بھی آگے بڑھ سکے اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اعتبار سے جو مسائل اٹھانا چاہتی ہیں ان پر بھی ایوان میں مباحث ہو سکے اور حکومت جواب دے پائے ۔ شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی یا پھر اٹل موقف اور بضد رویہ کے ذریعہ تعطل کو دور نہیں کیا جاسکتا۔ تعطل کو ختم کرتے ہوئے کام کاج کو آگے بڑھانا انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ تعطل کو مزید طوالت اختیار کرنے کا اگر موقع دیا جاتا ہے تو یہ عوامی مفاد میں نہیں ہوگا ۔
کسی بھی اجلاس سے قبل کاروباری مشاورتی کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے ۔ حکومت اس میں اپنا ایجنڈہ پیش کرتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں اپنے پوائنٹس اور مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ مشترکہ مساعی سے ایک نظم کے تحت ایوان کی کارروائی چلتی ہے تاہم فی الحال ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے اور اپوزیشن جہاںٹکراؤ کی کیفیت میںہے تو حکومت کی جانب سے بھی لچکدار موقف اختیار کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ ایوان کی کارروائی کو منظم اور پرسکون انداز میں آگے بڑھانا جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے وہیں اپوزیشن پر بھی یہ ذمہ عائد ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کام میں تعاون کرے ۔ حکومت کی رائے سے اختلاف کرنے اور اہمیت کے حامل مسائل اٹھانے کی اپوزیشن کو پوری آزادی اور اجازت ہے ۔ حکومت کو بھی اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا مکمل اختیار ہے ۔ دونوں ہی کو اپنے اپنے حدود میںرہتے ہوئے کام کرنا چاہئے تاکہ ایوان میںشور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کے ذریعہ کوئی وقت ضائع نہ ہونے پائے اور جوک روڑہا روپیہ اس پر صرف ہوتا ہے وہ ضائع نہ ہونے پائے ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ہی ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کو عوامی مسائل پر مباحث اور اظہار خیال کا پلیٹ فارم سمجھنا چاہئے ۔ اسے سیاسی دنگل یا اکھاڑہ کی طرح استعمال کرتے ہوئے سیاسی مفادات کی تکمیل اور ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے اور اس بات کو دونوں ہی فریقین یعینی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
ملک کے عوام نے سبھی کو ان کی ذمہ داری دی ہے ۔ عوام ہی کے ووٹ سے تمام ارکان ایوان میں پہونچے ہیںچاہے وہ برسر اقتدار جماعت کے ہوں یا اپوزیشن کی صفوں میںہوں ۔ انہیں عوام نے جن توقعات کے ساتھ ایوان کو روانہ کیا ہے انہیں پورا کرنا چاہئے ۔ جو ذمہ داری ان پر عوامی نمائندگی کی عائد ہوتی ہے اسے بہر حال پورا کیا جانا چاہئے ۔ سیاست کرنے کیلئے پارلیمنٹ کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔ موجودہ صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کو اپنے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے چاہئے اورٹکراؤ والا رویہ ترک کرتے ہوئے ایوان میں نظم بحال کرنے کیلئے مثبت سوچ کے ساتھ آگے آنا چاہئے ۔