بوئے گل مجھ سے یہ کہتی تھی چمن سے باہر
میری آزادی نے دیوانہ بنایا مجھ کو
پارلیمنٹ سیشن اور حکومت
پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا پہلا دن ہی اپوزیشن کے احتجاج اور بائیکاٹ کی نذر ہوگیا۔ صدرجمہوریہ کے مشترکہ ایوان سے کئے گئے خطاب کے دوران اپوزیشن نے زرعی قوانین کو واپس لینے کے مطالبہ کے ساتھ اپنا احتجاج درج کروایا۔ اس لئے وزیراعظم نریندر مودی نے تمام ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ ہندوستانی جمہوریت کے اقدار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہندوستانی عوام کو درپیش مسائل پر بحث کرنے اور غوروخوض کے لئے پارلیمنٹ کی کارروائی کو پرامن چلانے میں تعاون کریں۔ سوال یہ ہیکہ جب مرکزی حکومت اپنی مرضی کے قوانین بنا کر عوام کو مسائل سے دوچار کرے تو اس پر اعتراضات اٹھانا ہی جمہوریت کی اصل روح ہے۔ ایک طرف حکومت جمہوری اقدار کی دہائی دے رہی ہے۔ دوسری طرف غیرجمہوری طریقہ سے پالیسیاں بنا کر قانون سازی بھی کررہی ہے۔ گذشتہ پارلیمانی سیشن میں زرعی قوانین کو اتفاق الرائے کے بغیر ہی منظوری دیدی گئی۔ اب وزیراعظم مودی ارکان پارلیمنٹ سے خواہش کررہے ہیں ایوان کی کارروائی کو پرامن طور پر چلنے دیا جائے۔ وزیراعظم کا احساس درست ہے لیکن انہیں یہ بھی خبر ہیکہ دہلی کی سرحدوں پر کسان کس لئے احتجاج کررہے ہیں۔ پیر کو پیش کیا جانے والا مرکزی بجٹ نہایت ہی اہم ہوگا اس پر خود وزیراعظم نے کہا کہ اس بجٹ میں سلسلہ وار پیاکیجس دیئے گئے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہیکہ پارلیمنٹ میں ایک مکمل نیٹ کے بجائے چھوٹے بجٹ کے ذریعہ معاشی پیاکیجس کی سیریز جاری کی جائے گی۔ یہ پہلا موقع ہیکہ وزیرفینانس مختلف پیاکیجس کے ساتھ بجٹ پیش کریں گی جیسا کہ 2020ء میں بھی انہوں نے چار تا پانچ مئی یا چھوٹے بجٹ پیش کئے تھے۔ 29 جنوری سے شروع ہوئے بجٹ سیشن میں اپوزیشن نے اپنی طاقت اور اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ بجٹ سیشن کا پہلا مرحلہ 15 فبروری کو ختم ہوگا اور دوسرا مرحلہ 8 مارچ سے 8 اپریل تک رہے گا۔ یہ بجٹ سیشن ایک ایسے وقت منعقد ہورہا ہے جب ہندوستان ایک نازک دور سے گذر رہا ہے اسی لئے بجٹ کی تیاری میں معاشی پیداوار کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے۔ گذشتہ 6 سال سے مودی حکومت معاشی سطح پر ناکام ثابت ہورہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ہندوستان کو اپنی ابتر معاشی حالت کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اصل مسئلہ کوروناوائرس سے نمٹنے کا ہے۔ اس کے ساتھ حکومت کو اپنی پالیسیوں پر عمل آوری کے لئے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ فنڈس مختص کرنے ہوں گے۔ خالی سرکاری خزانہ کے ساتھ یہ حکومت بلند بانگ دعوؤں کو کس طرح پورا کرسکے گی یہ ناقابل قیاس ہے۔ مانسون سیشن میں عجلت میں زرعی قوانین منظور کرواکر حکومت نے دیکھ لیا ہے کہ اس کے کیا نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ اگر حکومت اپوزیشن کو نظرانداز کرکے اس مرتبہ بھی اپنا بجٹ سیشن مکمل کرلے گی تو پھر حکومت کے اصلاحات کا عمل ٹھپ رہ جائے گا۔ مودی حکومت کو اس بجٹ کی پیشکش کے علاوہ کئی بل منظور کرانے میں جلدی ہے خاص کر وہ پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن بل کو منظور کرائے گی۔ حکومت کے لئے یہ وقت نہایت ہی اہم ہے۔ اس لئے اسے اپوزیشن کو الگ کرکے ایوان کی کارروائی چلانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان سے مشترکہ خطاب میں بھی یہی بات کہی ہے کہ تمام ارکان پارلیمنٹ کو ایوان کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔ ایک دوسرے پر بھروسہ کریں تو ملک کو درپیش چیلنجس سے نمٹنے میں آسانی ہوگی ورنہ یہ ملک تھم جائے گا۔ مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ پارلیمانی کارروائی کو پرامن بنانے کے ساتھ عوامی مسائل کی یکسوئی کے لئے سنجیدگی کے ساتھ اپوزیشن سے مشاورت کرے۔ کل جماعتی اجلاس طلب کرکے پارلیمنٹ کے امور اور زرعی قوانین پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جائزہ لے اور یہ بھی د یکھے کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو فروغ پذیر معیشت اب روبہ زوال کیوں ہے۔ ادھر اپوزیشن کو بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے جمہوری قوتوں کی اخلاقی حمایت کرنی ہوگی اور ایک اپوزیشن کے فرائض کو پورے اعتبار کے ساتھ انجام دینے ہوں گے۔
اسرائیلی سفارتخانہ کے قریب دھماکہ
دارالحکومت دہلی ان دنوں تشویشناک واقعات کی زد میں ہے۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسان ٹریکٹر ریالی کے دوران تشدد کے بعد جمعہ کی شام وجئے چوک کے قریب واقع اسرائیلی سفارتخانہ کے نزدیک بم دھماکہ نے سراسیمگی پیدا کردی ہے۔ ملک میں زرعی قوانین کے خلاف جاری کسانوں کے احتجاج اور پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کے پہلے دن اپوزیشن کا صدرجمہوریہ کے خطاب کا بائیکاٹ کرنا ان سب خبروں کے درمیان اسرائیلی سفارتخانہ کے قریب دھماکہ سنسنی پیدا کرنے کی شرارتی کوشش ہوسکتی ہے۔ عوام کی توجہ اہم مسائل سے ہٹاکر اس طرح کے فضول واقعات کو ہوا دینے کی سازش کی جارہی ہے تو یہ ملک کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ اس مقام پر 7 سال قبل 2012ء میں بھی دھماکہ ہوا تھا جن میں اسرائیلی سفیر اور اہلیہ زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ یہ دھماکہ اے پی جے عبدالکلام مارگ پر جندال پارس کے قریب کیا گیا جو جدید ترین آلہ کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔ دھماکہ کے ذمہ داروں کو گرفتار کرکے اس حرکت کی اصل وجہ کا پتہ چلانا پولیس کا اولین فرض ہے۔ اگر اس طرح کے واقعات کے مرتکب افراد کا رابطہ حکومت کے بااثر افراد کے ساتھ ہو تو پھر حکومت اور پولیس دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ جائیں گے جیسا کہ دہلی پولیس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ پولیس ان خاطیوں کو گرفتار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھے گی۔ پولیس کو نہ صرف خاطیوں کو گرفتار کرنا ہے بلکہ اس کے پیچھے اصل سازشی ذہن کو بھی منظرعام پر لانا ہوگا ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت نے ملک کے اندر حالات بگاڑنے کی کوشش کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مودی حکومت میں سارے ملک کے اندر ایک وحشت طاری ہے۔ اس وحشت زدہ ماحول میں اگر حکومت اپنے پرفارمنس کا مظاہرہ کہیں اور کرنے لگے تو ہندوستان اندر ہی اندر ٹوٹتا جائے گا۔
