اِک چراغ اپنی وفاؤں کا جلائے رکھنا
اُس کی لَو کو ہواؤں سے بچائے رکھنا
پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس آج سے شروع ہونے والا ہے ۔ سشن سے قبل حکومت کی جانب سے کل جماعتی اجلاس منعقد کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی پرسکون انداز میں چلانے کیلئے تیار رہنے کا ادعا کیا ہے اور یہ بھی تیقن دیا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے جو کچھ بھی مسائل اٹھائے جائیں گے ان پر مباحث کیلئے حکومت تیار ہے ۔ پارلیمنٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو سارے ملک کی نمائندگی کرتا ہے اور حکومت کو ایوان میں جوابدہی کے احساس کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ گذشتہ دس بارہ برس میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریز کیا گیا ہے ۔ صرف زبانی جمع خرچ کیا گیا ہے اور بنیادی نوعیت کے حامل اہم ترین مسائل پر کسی طرح کے مباحث سے عملا گریز کیا گیا ہے ۔ کئی انتہائی اہمیت کے حامل مسائل پر ایوان میں صرف اڈھاک بنیادوں پر کارروائی کی گئی ہے ۔ کئی بلز کو کسی بحث کے بغیر منظور کروالیا گیا ہے ۔ کئی امور پر ایوان میں سیرحاصل مباحث کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی ہے اور پارلیمنٹ ہی وہ ادارہ ہے جہاں اپوزیشن کو اپنی آواز اور تجاویز کو موثر ڈھنگ سے پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے کام کاج پر تبصرے بھی اسی ایوان میں کئے جاتے ہیں۔ حکومت کی قانون سازیوں پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے ۔ حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ اپنی رائے کا اظہار کیا جاتا ہے اور حکومت کے تجویز کردہ قوانین کی غلطیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا رہا ہے ۔ یہ ہماری پارلیمنٹ کی روایت رہی ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں ایوان کے باہر خیرسگالی کے جذبات بھلے ہی دکھائی نہ دیں لیکن ایوان میں ضرور یہ جذبات دکھائی دیتے رہے ہیں لیکن حالیہ وقتوں میں یہ سب کچھ ختم ہونے لگا ہے ۔ حکومت اکثریت کے بھرم میں کام کر رہی ہے اور اکثریت کے زعم میں اپوزیشن کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دئے جا رہے ہیں۔ صرف طاقت کے بل پر ایوان کی کارروائی چلانے کی روایت عام کردی گئی ہے ۔
پارلیمنٹ کا مانسون سشن ایسے وقت میں منعقد ہو رہا ہے جب ملک کے عوام کے ذہنوں میں کئی سوال موجود ہیں۔ خاص طور پر آپریشن سندور کے بعد کے حالات پر حکومت کو جواب دینے کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔ پہلگام دہشت گرد حملے پر بھی حکومت کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو کی جانب سے پہلگام حملے میں حکومت کی اور انٹلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کیا گیا تھا ۔ حکومت کو یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ پہلگام میں حملہ کرنے آئے دہشت گرد کہاں چلے گئے ۔ تاحال ان کی گرفتاری کیوں عمل میں نہیں آسکی ہے اور کس طرح سے وہ سرحد پار کرتے ہوئے پہلگام تک پہونچ پائے تھے ۔ ساتھ ہی یہ بھی جواب دہی ضروری ہے کہ جب سارا ملک چاہتا تھا کہ پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر ہندوستانی قبضہ کو بحال کرلیا جائے تو ایسا کیوں نہیں کیا گیا اور فوری جنگ بندی سے اتفاق کیوں کیا گیا ۔ یہ وضاحت بھی کرنی چاہئے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کیوں لگاتار اس جنگ کے تعلق سے ایسے دعوے کر رہے ہیں جن کی حکومت کی جانب سے تردید کی جا رہی ہے ۔ سب سے اہم جواب یہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہند ۔ پاک کے مابین جنگ بندی کا اعلان دونوںملکوں سے پہلے ٹرمپ نے کیوں کیا ؟ ۔ کیوں ٹرمپ کو جنگ بندی کا قبل از وقت علم ہوپایا تھا اور انہوںنے کس حیثیت میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا ۔ وہ جنگ بندی خود کروانے کے دعوے بھی کر رہے ہیں اور اس پر بھی حکومت کو جواب دینے کی ضرورت ہے ۔
جس طرح سے ٹی وی چینلس پر بیٹھ کر پروپگنڈہ کرتے ہوئے سوالات کو ٹالا جا رہا ہے اس طرح کی روش پارلیمنٹ میں اختیار نہیں کی جانی چاہئے ۔ ایوان کے وقار اور اس کی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن کے سوالات کی پرسکون انداز میں سماعت کی جانی چاہئے اور اطمینان بخش انداز میں ان کے جواب دئے جانے چاہئیں۔ ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میں چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے پورا کیا جانا چاہئے ۔ جب اپوزیشن سے حکومت کو تعاون درکار ہے تو پھر پارلیمانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپوزیشن کے سوالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنے کیلئے بھی حکومت کو تیار رہنا چاہئے ۔