لگائے مہر بیٹھے ہیں سبھی اپنی زبانوں پر
مگر سچائی کہنے پر کوئی مائل نہیں ہوتا
پارلیمنٹ میں گذشتہ ہفتے سے تعطل جیسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور اپوزیشن کی جانب سے آئین پر مباحث کا مطالبہ کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کی جا رہی تھی ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ہی ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کئی مسائل اٹھائے جا رہے تھے اور حکومت کی جانب سے ان مطالبات پر کوئی مثبت رد عمل دکھائی نہیںدے رہا تھا ۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتیںایوانوں کی کارروائی میں خلل پیدا کرتے ہوئے رکاوٹ ڈال رہی تھیں اور کوئی کام کاج منظم انداز میں آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا ۔ پارلیمنٹ اجلاس کیلئے حکومت کا ایک ایجنڈہ ہے اور کچھ اہم پالیسی فیصلے بھی کئے جانے کا امکان ہے ۔ ایسے میں اگر ایوان کی کارروائی میںلگاتار خلل پیدا ہوتا رہا تو پھر حکومت کے کام کاج اور اہم فیصلے بھی تعطل کا شکار رہ جاتے اور دوسرے امور پر بھی کوئی پیشرفت ممکن نہیںہو پاتی ۔ ایسے میں آج حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں آئندہ ہفتے ایوان میں آئین پر مباحث کروانے سے اتفاق رائے پیدا ہوگیا ہے جس کے بعد تعطل ختم ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ پارلیمنٹ میں ویسے تو کئی اہم اور حساس نوعیت کے مسائل پر مباحث کئے جاتے ہیں اور ملک بھر کے عوام کی نظریں ایوان کی کارروائی پر ہوتی ہیں۔ حکومتیں اپنے منصوبے اور پروگرامس ایوان میں پیش کرتی ہیں۔ قانون سازی کی جاتی ہے اور جو بل پیش کئے جاتے ہیں ان پر ایوان میں مباحث ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے جو موجودہ حالات ہوتے ہیں ان پر بھی مباحث ہوتے ہیں اور اپوزیشن اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے جبکہ حکومت اس کا جواب دیتی ہے ۔ا س صورتحال میں موجودہ دور میں اپوزیشن جماعتوں کا اصرار تھا کہ پارلیمنٹ میں ملک کے آئین اور دستور پر مباحث کروائے جائیںا ور ملک کے عوام کے سامنے ایک واضح خاکہ پیش کیا جائے ۔ ملک میں دستور کے تعلق سے جو مباحث چل رہے ہیںاس صورتحال میںایوان میں مباحث واقعتا ضروری ہوگئے تھے تاکہ عوام کے سامنے ایک واضح صورتحال آئے اور حکومت اپنے موقف کے ذریعہ ان تبصروں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ روک سکے ۔
گذشتہ پارلیمانی انتخابات کی مہم کے وقت سے دستور کے تعلق سے کئی طرح کے تبصرے دیکھنے میںآئے ہیں۔ کچھ قائدین بارہا یہ کہتے دیکھے گئے ہیں کہ بی جے پی زیر قیادت حکومت دستور کو تبدیل کردینا چاہتی ہے ۔ چیف منسٹر جیسے ذمہ دار اور دستوری عہدہ پر فائز افراد بھی یہ کہنے لگے ہیں کہ اصل دستور میں لفظ سکیولر اور سوشلسٹ کا تذکرہ پہلے نہیں تھا اور انہیں بعد میںشامل کیا گیا ہے ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت دستور سے کھلواڑ کر رہی ہے اور دستور میں ملک کے عوام کو جو حقوق دئے گئے ہیںان کی تکمیل نہیں کی جا رہی ہے بلکہ عوام کو دستور میں دئے گئے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ ساری بحث کے دوران انتہائی گنجلک اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ اس میںضروری ہوگیا ہے کہ ملک کے اعلی ترین پالیسی ساز ادارے پارلیمنٹ کے ذریعہ ان مباحث کو ختم کیا جائے اور حکومت ایک جامع اور واضح پیام سارے ملک اور ملک کے عوام کیلئے دے تاکہ ان کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں انہیں دور کیا جاسکے اور عوام دستور کے تعلق سے ایک رائے ہوجائیں۔ اس کے علاوہ جو قائدین دستور کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں اور اس تعلق سے غیر ضروری اور غلط پروپگنڈہ کر رہے ہیں ان کا منہ بھی بند کیا جاسکے ۔ ہندوستان کا جو دستور ہے وہ ساری دنیا میں منفرد مانا جاتا ہے اور ملک کے اسی دستور کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور اس پر عوام کو اندیشوں کا غلط فہمیوں کا شکار ہوتے رہنے کا موقع نہیں دیا جاسکتا ۔
اب جبکہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین اس مسئلہ پر اتفاق رائے ہوگیا ہے تو ایوان میںتمام شبہات وغیرہ کو دور کیا جانا چاہئے ۔ دستور کی مسلمہ حیثیت کو واضح کردیا جانا چاہئے اور اس پر ہونے والے غیر ضروری پروپگنڈہ کو روکا جانا چاہئے ۔ اپوزیشن کو اپنے تمام شبہات کا کھل کرا ظہار کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرنے کی ضرورت ہے تو حکومت کو تمام طرح کے سوالات کا موثر ڈھنگ سے جواب دینا چاہئے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اس تعلق سے اب کسی کے ذہن میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے اور دستور کی اہمیت اور اس میں عوام کو دئے گئے تمام حقوق کو انتہائی موثر انداز میں واضح کردیا جائے ۔