پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس

   

عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل


ملک کی پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس 7 ڈسمبر سے شروع ہونے والا ہے ۔ ویسے تو ہر پارلیمانی اجلاس ہمیشہ ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے تاہم اس بار سرمائی اجلاس کی اہمیت بہت زیادہ ہی کہی جاسکتی ہے ۔ پارلیمنٹ میں حکومت اپنے قوانین کو منظوری دلانے کی کوشش کرتی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے اہمیت کے حامل مسائل کو اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ پارلیمانی اجلاس سے قبل ہمیشہ کی روایت رہی ہے کہ فریقین کی جانب سے اجلاس کی کارروائی کو پرسکون انداز میں چلانے کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا جاتا ہے اور یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ وہ اپنی جانب سے ہمیشہ مسائل کو اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے اور ایوان کی کارروائی میں کوئی خلل پیدا نہیں کیا جائیگا ۔ حکومت بھی یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو اپنا موقف رکھنے کا پورا موقع فراہم کرے گی ۔ اپوزیشن کی جانب سے جو مسائل اٹھائے جانے ہیں ان پر حکومت ایوان میں مباحث کیلئے تیار رہنے کا دعوی بھی کرتی ہے ۔ تاہم فریقین کے یہ دعوے ہمیشہ ہی غلط ثابت ہوئے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے ہمیشہ ہی اپوزیشن کے مسائل کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انہیں پورا موقع فراہم نہیں کیا جاتا ۔ حکومت کو منصوبے بناتی ہے ان کی تکمیل کیلئے ہر ممکن کوشش کرتی ہے ۔ ایوان کے نظم کا کوئی خیال رکھے بغیر اور قوانین کی پرواہ کئے بغیر اپنے فیصلوں پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی حکومت کے کام کاج میں خلل اور رخنہ انداز ی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ اپوزیشن کا یہ اصرار ہوتا ہے کہ ان کے اٹھائے ہوئے مسائل کو اہمیت دی جائے ۔ ان پر ایوان میں مباحث کروائے جائیں۔ ان کے منشا کے مطابق حکومت ان مسائل پر جواب دیتے ہوئے انہیںمطمئن کرنے کی کوشش کرے ۔ تاہم اکثر و بیشتر ایسا ہوتا نہیں ہے اور دونوں ہی فریقین اپنے اپنے موقف پر اٹل رہتے ہوئے ایوان کے کام کاج کو متاثرکرتے ہیں۔ کوئی بھی لچکدار موقف اختیار کرنے تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سلسلہ میں فریقین کے مابین کسی طرح کا تعاون و اشتراک ہوتا ہے ۔ مسائل کی اہمیت کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اپنے سیاسی موقف کو ہی پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
آج ملک میں جو حالات ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔ عوام کو کئی طرح کی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے ۔ مہنگائی اپنی حدوں کو چھو رہی ہے ۔ بیروزگاری ہمیشہ سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے ۔ عوام میں ایک طرح کی بے چینی پیدا ہونے لگی ہے ۔ لوگ اپنے مستقبل کے تعلق سے فکرمند ہیں۔ مسائل ختم ہونے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ حکومت اپنے طور پر اقدامات کا اعلان کرتی ہے لیکن ان کا اثر کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آتا ۔ حکومت اپنے موقف کو درست قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی ۔ عوامی مسائل کو اپنے انداز میں الٹ پھیر کرتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے ۔ کبھی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر مہنگائی سے انکار کیا جاتا ہے تو کبھی ایوان میں یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کو اب مشکل حالات کا سامنا کرنے کا عادی بنانا وقت کی ضرورت ہے اور مستقبل میں بھی مشکل فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں حکومت کو عوام کو درپیش چیلنجس اور مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے لچکدار موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو مسائل ہیں ان کی سنگینی اور اہمیت کا اعتراف کیا جانا چاہئے ۔ ان سے نمٹنے کیلئے حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کی افادیت سے اپوزیشن کے ساتھ ملک کے عوام کو بھی واقف کروایا جانا چاہئے ۔ اگر عوام اور اپوزیشن کی تشویش کو دور کرنے حکومت کو ایک قدم اضافی آگے بڑھنا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کیا جانا چاہئے ۔
جہاں تک اپوزیشن کاسوال ہے تو اپوزیشن کو بھی تعمیری اپوزیشن کا رول ادا کرنا چاہئے ۔ صرف مخالفت برائے مخالفت نہیں ہونی چاہئے ۔ جہاں کہیںحکومت کے اقدامات ‘ پالیسیوں اور پروگرامس میں کوئی خامی ہو تو ضرور اس کو اجاگر کیا جانا چاہئے ۔ حکومت کو جوابدہ بنانا چاہئے ۔ حکومت سے جواب طلب کیا جانا چاہئے ۔ تاہم محض مخالفت کی وجہ سے ایوان کی کارروائی میں خلل یا رخنہ اندازی پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ جو صورتحال آج ملک میں درپیش ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے کہ سیاسی مخالفتوں کو پارلیمنٹ کے باہر رکھا جائے ۔ پارلیمنٹ کے اندر سب متحدہ طور پر ملک اور عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے پر توجہ دیں۔ عوام کے حالات کو بہتر بنانے کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کریں۔ ایک دوسرے کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے ۔ اسی طرح سے وفاقی اور کارکرد طرز حکمرانی کے تقاضوں کی تکمیل ممکن ہوسکتی ہے ۔
دہلی شراب اسکام کی تحقیقات
دہلی شراب اسکام کی تحقیقات نے اب تلنگانہ کی سیاست میںہلچل پیداکرنی شروع کردی ہے ۔ ان تحقیقات کے نام پر سیاسی کھیل بھی ہونے لگے ہیں۔ جہاں بی جے پی کی جانب سے ٹی آر ایس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں ٹی آر ایس کی جانب سے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ دہلی شراب اسکام میں اب باضابطہ طور پر چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی دختر و ایم ایل سی کے کویتا کا نام بھی شامل ہوگیا ہے ۔ انہیں بھی پوچھ تاچھ کیلئے حاضر ہونے نوٹس جاری کردی گئی ہے ۔ تاہم یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سارا کچھ آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل ہونے والا سیاسی کھیل ہے ۔ اس کے ذریعہ جہاں بی جے پی ٹی آر ایس کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے وہیں ٹی آر ایس اس سارے مسئلہ سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے ۔ اس صورتحال نے ریاست میں سیاسی اعتبار سے دلچسپ حالات پیدا کردئے ہیں۔ ایک اسکام کی تحقیقات کے نام پر بھی سیاست ہونے لگی ہے ۔ یہ شائد ملک کی کسی ریاست میں پہلی بار پیدا ہونے والے حالات ہیں کہ کسی اسکام کی تحقیقات کے نام پر سیاست ہو رہی ہے ۔ دیکھنا ہے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔