پارلیمنٹ کا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال

   

وہی جو خود کو بناکر مثال رکھتے ہیں
کسی کا دل نہ دُکھے، یہ خیال رکھتے ہیں
پارلیمنٹ ہندوستانی جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے ۔ اسے انتہائی اہمیت حاصل ہے اور اسی پارلیمنٹ میں ملک اور ملک کے عوام کے تعلق سے اہم ترین اور بنیادی فیصلے ہوتے ہیں۔ یہیں حکومتیں اپنے منصوبوںاور پروگرامس کو پیش کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں ملک کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں قوانین پیش کئے جاتے ہیں۔ پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم ہوتی ہیں۔ کئی اعتبار سے پارلیمنٹ کو ملک کی جمہوریت اور حکومت میں مرکزی مقام حاصل ہے ۔ پارلیمنٹ کے تقدس کی تمام سیاسی جماعتیں دہائی دیتی ہیں۔ ہر جماعت اس تعلق سے اپنے آپ کو پارلیمنٹ کے احترام کی چمپئن قرار دیتی ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے تقدس کی دہائی دینے والے لوگ بھی پارلیمنٹ کا سیاسی مقاصد اور مفادات کیلئے استعمال کرنے لگے ہیں۔ جو بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل ہوتے ہیں ‘ جن کا ملک اور ملک کے عوام سے تعلق ہوتا ہے ان پر مباحث کہیں پس منظر میں چلے جاتے ہیں یا پھر مباحث کئے ہی نہیں جاتے ۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو نشانہ بنانے کے حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ملک کے عوام پارلیمنٹ کی کارروائی کا مشاہدہ کرتے ہیں اس لئے ہر جماعت عوام کے سامنے اپنے آپ کو ان کا مسیحا ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ حقیقت میں عوامی مسائل پر شائد ہی کوئی توجہ کرپا رہا ہوتا ہے ۔ حکومتیں اپنے منصوبوں اور پروگرامس کو اپنے ایجنڈہ کے مطابق آگے بڑھاتی ہیں۔ وہ اپنے ایجنڈہ کی تکیمل کیلئے حربے اختیار کرتی ہیں تو اپوزیشن کی جانب سے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس ساری رسہ کشی میں پارلیمنٹ کا انتہائی اہم اور قیمتی وقت ضـائع ہوجاتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں وہ ٹھوس کام نہیں ہوپاتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں جن کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ اپوزیشن کی جانب سے اس کیلئے حکومت کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے تو اپوزیشن کی جانب سے اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر عائد کردی جاتی ہے ۔ یہ صورتحال ملک کے مفادات میںہرگز نہیں کہی جاسکتی ۔
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ کا وقت ضائع کیا گیا ہے ۔ سوالات کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ جواب دینے سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ہر طرح سے توجہ دہانی کے باوجود پارلیمنٹ کا جو بنیادی کام ہونا چاہئے وہ نہیں ہو پایا ہے ۔ اب بھی راہول گاندھی کے لندن ریمارکس پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی جاری ہے ۔ حکومت کی جانب سے راہول گاندھی سے معذرت خواہی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور کانگریس چاہتی ہے کہ حکومت یا وزیراعظم معذرت خواہی کریں۔ ہر کوئی اپنے اپنے موقف پر اٹل ہے ۔ کوئی بھی پارلیمنٹ کے وقت کی اہمیت کو سمجھنے اور اس کے مطابق کام کاج کو آگے بڑھانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ فریقین کی جانب سے اپنے اپنے موقف کو درست قرار دینے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔ اقتدار میں بیٹھ کر وزراء کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے کام کاج کو آگے بڑھانے اور پرسکون انداز میں کارروائی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں لیکن وہ بھی سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے متحرک ہیں اور اپوزیشن تو اپنے موقف کو پیش کرنے کا موقع گنوانا نہیںچاہتی ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں اور اس میں وہی بنیادی مقصد فوت ہو رہا ہے جس کی تکمیل کیلئے ملک کے عوام نے امیدواروں کو اپنے ووٹ دیتے ہوئے لوک سبھا تک بھیجا ہے ۔ یہ روش پارلیمنٹ کی اہمیت اور افادیت کو متاثر کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔
کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے لندن میں جو ریمارکس کئے ہیں ان کا پس منظر کیا تھا اس کے مقاصد کیا تھا وہ بھی ایک موضوع ہوسکتا ہے لیکن صرف اسی کو موضوع بناتے ہوئے عوام کو درپیش مسائل کو پس منظر میں ڈھکیل دینا درست نہیںہوسکتا ۔ پارلیمنٹ کے وقت کو ضائع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور اس سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے ۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ہوں دونوں ہی کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے کئی پلیٹ فارمس مل سکتے ہیں کئی مواقع دستیاب ہوسکتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کا وقت ضائع کرنے سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے ۔ جمہوری ادارہ اور اس کے تقدس پر کسی کو سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے ۔ملک کے عوام کی امیدیں پارلیمنٹ سے وابستہ ہوتی ہیں اور اس کا خیال رکھنا سبھی کا فریضہ ہے ۔