پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمنٹ کو انتہائی اہمیت کا حامل اور مرکزی مقام حاصل ہوتا ہے ۔ سال میں مخصوص ایام میں اس کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے تاکہ حکومت اپنے منصوبوںاور پروگراموں سے واقف کرواسکے اور سبھی کی رائے حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاسکے ۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ اجلاس میں حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کو بھی اپوزیشن کی جانب سے اجاگرک یا جاتا ہے اور اس کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کو جو شاندار پارلیمانی روایات رہی ہیں ان میں کئی مواقع ایسے ہیں جب حکومتوں نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو اپنے منصوبںو اور پالیسی پروگراموں میں شامل کیا ہے ۔ اپوزیشن کو حکومت کی مشکلات اور مسائل سے واقف کروایا ہے اور ان کو اعتماد میں لیتے ہوئے منصوبے تیار کئے گئے ہیں۔ تاہم گذشتہ کچھ وقت سے یہ سارا کچھ غائب ہوگیا ہے ۔ حکومت من مانی انداز میں فیصلے کرتے ہوئے انہیں صرف ٹھونسا اور مسلط کیا جا رہا ہے ۔ پارلیمانی روایات سے انحراف کرتے ہوئے کئی اہم فیصلوں اور بلوں پر کسی طرح کے مباحث کی گنجائش ہی فراہم نہیں کی جا رہی ہے ۔ حکومت ایوان کے باہر تو عوام کے درمیان بلند بانگ دعوے کرتی ہے کہ وہ تمام مسائل پر ایوان میں مباحث اور تبادلہ خیال کیلئے تیار ہے لیکن جب ایوان میں ان مسائل کو اٹھایا جاتا ہے تو ان پر مباحث سے حکومت دامن بچالیتی ہے اور ایوان کی کارروائی کو برخواست کرتے ہوئے وقت ضائع کردیا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ کا جو اجلاس اب زیر دوران ہے اس میں تین دن عوامی مسائل پر مباحث کے بغیر صرف ہنگاموں اور شور شرابہ کی نذر ہوگئے ہیں اور کسی اہم مسئلہ پر حکومت نے کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایوان میں پٹرول ‘ ڈیزل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور اکسائز ڈیوٹی کے ذریعہ لوٹ کا مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ راست عوام سے تعلق رکھنے والے اس مسئلہ پر بھی حکومت کوئی جواب دینے تیار نہیں ہے ۔ حکومت صرف ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے ۔
پٹرول ‘ ڈیزل اور گیس کی قیمتوں کا مسئلہ راست عوام کی جیب سے اور ان کے بجٹ سے جڑا ہوا ہے ۔ حکومت بین الاقوامی مارکٹ میں قیمتوں میں اضافہ کا عذر پیش کر رہی ہے لیکن اکسائز ڈیوٹی کے ذریعہ جو لوٹ مچائی جا رہی ہے اس حقیقت کو عوام سے پوشیدہ رکھا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں جب عوام کو راحت دینے اکسائز ڈیوٹی میں کمی کرنے کی بات کرتی ہیں تو انہیں ایوان میں اور ایوان کے باہر خاموش کردیا جا رہا ہے اور ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے ۔ اسی مسئلہ پر پارلیمنٹ کے تین دن ضائع ہوگئے ۔ اس پر لاکھوں روپئے کا خرچ بھی ہوا ہے اور وہ بھی ضائع ہوگیا ہے ۔ حکومت سنجیدگی سے ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانے کے موڈ میں نظر نہیں آتی ۔ محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے پارلیمنٹ اجلاس طلب کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کے کچھ بلز کی منظوری بزور اکثریت کروائی جا رہی ہے ۔ یہ صورتحال ملک کی جمہوریت کو کھوکھلی کرنے والی ہے اور اس سے عوامی شراکت پر سوال اٹھنے لگیں گے ۔ اپوزیشن کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائیگا اور اجتماعی جوابدہی کے احساس کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ ملک کی جمہوریت میں یہ گنجائش ہے کہ حکومت جہاں اپنا کام کاج انجام دے وہیں اپوزیشن کی شکل میں حکومت سے سوال پوچھنے والے بھی موجود ہوں اور حکومت ان کو جواب دینے کی پابند ہے لیکن موجودہ حکومت ملک کے عوام کو بھی جواب دینے کیلئے تیار نظر نہیں آتی اور نہ ہی ان کی رائے کا احترام کیا جا رہا ہے بلکہ من مانی طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے ۔
حکومت کو انتہائی اہمیت کے حامل مسائل پر ایوان میں مباحث سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ جو تشویش ملک کے عوام کو لاحق ہے اور اپوزیشن جماعتیں جو سوال حکومت سے کر رہی ہیں ان کا جواب دیا جانا چاہئے ۔ اپوزیشن کے شکوک و شبہات کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور ان ذمہ داریوں کی عدم تکمیل ملک کی جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ جس طرح سے پارلیمنٹ کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے وہ پارلیمانی جمہوریت سے مذاق کے مترادف ہے ۔ حکومت کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور پارلیمنٹ کا وقت ضائع ہونے سے بچانے کیلئے حکومت کو آگے آنا ہوگا ۔
