پارلیمنٹ کے افتتاح پر اختلافات

   

ملک کی نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کے افتتاح کا وقت قریب آگیا ہے ۔ اس مسئلہ پر بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین ٹکراو کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ایک حکومت اور میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ عمارت وزیرا عظم نریندر مودی نے بنوائی ہے ۔ یہ ایک طرح کا پروپگنڈہ ہتھیار ہے جو بی جے پی اور اس کا گودی میڈیا اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہ عمارت در اصل حکومت ہند نے بنائی ہے۔ عوام کے پیسے سے بنائی گئی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی حکومت میں یہ عمارت تعمیر کروائی گئی ہے ۔ اس عمارت کا افتتاح بھی وزیراعظم نریندرمودی کر رہے ہیں جبکہ کہا جا رہا ہے کہ قاعدہ کے مطابق صدر جمہوریہ ہند کو اس عمارت کے افتتاح کیلئے مدعو کیا جانا چاہئے تھا ۔ ویسے تو حکومت اور اپوزیشن کے مابین تقریبا ہر مسئلہ پر اختلاف رائے شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور اب جبکہ آئندہ پارلیمانی انتخابات کیلئے بمشکل ایک سال کا وقت رہ گیا ہے تو یہ اختلافات مزید شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہر مسئلہ کو سیاسی رنگ دینے کی کوششیں بھی دونوں جانب سے ہو رہی ہیں۔ جہاں تک موجودہ مرکزی حکومت کا سوال ہے تو یہ بات واضح ہے کہ حکومت تشہیر اور پروپگنڈہ کا کوئی موقع گنوانا نہیںچاہتی اور اس میں بھی صرف وزیر اعظم نریندر مودی کو پیش کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی کسی اسکیم یا کسی پروگرام کی تشہیر یا پروپگنڈہ ایسا نہیں ہے جس میں وزیر اعظم کی تشہیر نہیں کی جا رہی ہو ۔ متعلقہ وزیر کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا تذکرہ ہر جگہ ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ملک میں اب تک کسی بھی وزیر اعظم نے تشہیر پر اتنی توجہ نہیں دی جتنی موجودہ وزیر اعظم دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ بلڈنگ کی تعمیر بھی مودی حکومت کا منصوبہ تھا ۔ اس کو پورا کیا گیا ہے۔ تعمیری کام مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ عمارت اب تیار ہوچکی ہے اور اس کا افتتاح ہونے والا ہے ۔ ملک کے سربراہ ہونے کے ناطے صدر جمہوریہ ہند شریمتی دروپدی مرمو سے پارلیمنٹ عمارت کا افتتاح کروایا جانا چاہئے تھا تاہم یہاں بھی وزیر اعظم کو ہی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور انہیں کے ہاتھوں افتتاح ہونے والا ہے جس سے اپوزیشن جماعتیں مطمئن نہیں ہیں۔
ملک میں حکومت بھلے ہی بی جے پی کی ہو لیکن ہر جماعت اور پارلیمنٹ پہونچنے والے ہر رکن کی اہمیت ہے۔ اس پارلیمنٹ میں جو اجلاس منعقد ہونگے اس میں ہر جماعت کے ارکان ہونگے ۔ آزاد ارکان بھی ہونگے اور ان جماعتوں کے ارکان بھی ہونگے جو حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں سے اتفاق نہیں کرتے ۔ سبھی کی رائے کو احترام کی نظر سے دیکھا جانا چاہئے ۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف مودی حکومت کیلئے یہ عمارت تعمیر کی گئی ہو۔ ملک میں قائم ہونے والی ہر حکومت اسی پارلیمنٹ میں اپنے اجلاس منعقد کرے گی اور حکومتیں کسی بھی جماعت کی ہوسکتی ہیں اور کتنی ہی جماعتیں اس میں شریک اور حصہ دار ہوسکتی ہیں۔ ایسے میں تمام جماعتوں کی رائے حاصل کرتے ہوئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے تھی ۔ مودی حکومت نے تاہم ایسا نہیں کیا ہے ۔ حکومت کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلہ میں اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتی ہے اور اپوزیشن کی رائے کو کوئی مقام یا احترام نہیں دیا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن سے رائے لینا بھی گوارہ نہیں ہے اور اس کو قبول کرنے کی بات تو ممکن ہی نظر نہیں آرہی ہے ۔ ایسے میں جمہوری اصولوں کے استحکام کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں کیونکہ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن سب کی اہمیت ہے اور سبھی کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق حاصل ہے ۔ حکومت اس رائے کو چاہے قبول نہ کرے لیکن اس پر غور ضرور کیا جاسکتا ہے ۔ پارلیمنٹ عمارت کے معاملے میں بھی ایسا کیا جانا چاہئے تھا ۔
پارلیمنٹ عمارت کے مسئلہ پر حکومت اوراپوزیشن سبھی کو لچکدار موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ملک کی جمہوریت کا مسئلہ ہے اور پارلیمنٹ کے تقدس اور احترام سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات ہوسکتے ہیں۔ حکومت اوراپوزیشن کی رائے مختلف ہوسکتی ہے لیکن پارلیمنٹ بلڈنگ کے افتتاح کے مسئلہ پر اتفاق رائے ہونا چاہئے ۔ جو بھی پروگرام منعقد کئے جائیں یا جوبھی تقریب منعقد کی جائے اس میں ملک کے جمہوری نظام کی عکاسی ہونی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے ہو اور سبھی کی شمولیت کو یقینی بنایا جاسکے ۔