پارلیمنٹ یا سیاسی اکھاڑہ

   

مانا کہ رُخ ہواؤں کا تھا اس طرف مگر
ہم پھر بھی لو دیوں کی بڑھاتے چلے گئے
دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے تعلق سے وزیر داخلہ امیت شاہ کے ریمارکس کے بعد جو تنازعہ پیدا ہوگیا ہے اس سے توجہ ہٹانے کیلئے آج پارلیمنٹ کو ہی سیاسی اکھاڑہ میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ ارکان پارلیمنٹ لاٹھیوں پر پلے کارڈز لگاتے ہوئے پارلیمنٹ پہونچے اور پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر ایک دوسرے کے ساتھ ارکان پارلیمنٹ کے مابین دھکم پیل اور دھینگا مشتی ہوئی اور دعوی کیا جا رہا ہے کہ دونوں جانب سے ایک ایک رکن پارلیمنٹ زخمی ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ ملک کا مستقبل اور عوام کی فلاح و بہبود طئے کرنے والا ادارہ ہے ۔ اس ادارہ کا ایک تقدس ہے ۔ اس کی اپنی اہمیت ہے ۔ یہاں ملک و قوم کو درپیش مسائل پر مباحث ہونے چاہئیں۔ وہاں ایک دوسرے کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا بھی چاہئے کیونکہ یہی جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے ۔ تاہم ایک دوسرے کے ساتھ دھکم پیل کی کسی کو بھی اجازت نہیںدی جاسکتی اور نہ ہی ارکان پارلیمنٹ کو ایسی حرکتیں ذیب دیتی ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ جیسا ادارہ ملک کے عوام کیلیء ایک مثال ہوسکتا ہے ۔ اگر ارکان ہی ساری قوم کے سامنے اس طرح کی حرکتیںکرتے ہیں تو پھر ملک کے عوام کے سامنے جو مثال قائم ہوگی وہ انتہائی ابتر ہی ہوگی ۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی اہمیت اور ان کے احترام کے تعلق سے سیاسی جماعتوں میں جس طرح کے بیانات دئے جا رہے تھے ان ہی کو اختلاف کا موضوع بنادیا گیا ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ ایک دستوری اور ذمہ دار عہدہ پر فائز ہیںاور انہیںدستور ہند کے معمار کے تعلق سے ہی اہمیت گھٹانے والے ریمارکس کرنے سے گریز کرناچاہئے تھا ۔ اگر مباحث کی گرما گرمی میں کوئی بات زبان سے نکل بھی گئی ہو تو اس کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت خواہی کی جاسکتی ہے ۔ اگر معذرت خواہی کی جائے تو اس سے کسی کے عہدہ پر یا مرتبہ پر کوئی فرق نہیںپڑتا بلکہ مثبت رائے ہی بنتی ہے ۔ تاہم ایک ریمارک کا جواز پیش کرنے یا مدافعت کرنے کی کوشش افسوسناک ہے اور اس کو چھپانے کیلئے اس طرح کی حرکتیں کرنا انتہائی نامناسب ہے ۔
جس تیاری سے بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ ایوان میں پہونچے تھے اور ابتداء ہی سے انہوں نے جس طرح کے تیور اختیار کئے تھے وہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ لوگ اچھی نیت اور اچھے عزائم کے ساتھ ایوان میں نہیںآئے تھے ۔ وہ وزیر داخلہ کے ریمارکس کی مدافعت کرنے پلے کارڈز کے ساتھ آئے تھے حالانکہ ان ریمارکس پرا فسوس کا اظہار کیا جانا چاہئے تھا ۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اس ملک کے دستور کے معمار ہیں۔ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ہر ایک کو ان کا احترام کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ ملک کے مجاہد آزادی بھی ہیں۔ انہوں نے اس ملک کے تمام طبقات کے حقوق دستور کے ذریعہ فراہم کرنے کی جدوجہد کی تھی اور سبھی کو ان کی ذمہ داریوں کے تعلق سے بھی دستو ر کے ذریعہ واقف کروایا تھا ۔ اس کے باوجود اگر ان کے تعلق سے نامناسب ریمارکس کئے جاتے ہیں تو یہ افسوسناک صورتحال ہی کہی جاسکتی ہے ۔ ان ریمارکس پر افسوس کا اظہار کرنے اور غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے ساری پارٹی کو ہٹ دھرمی والے رویہ کیلئے تیار کرنا اور ایوان کی سیڑھیوں پر اس طرح کی دھکم پیل اور دھینگا مشتی کرنا ملک کی پارلیمانی جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ سیاسی اختلافات اور اختلاف رائے کو شخصی مخالفت کیلئے نشانہ بنانا افسوسناک پہلو ہے اور سیاسی جماعتوں میں اخلاق و اقدار کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے ۔ ہماری روایات اخلاقیات اور اقدار پر مبنی رہی ہیں اور اب ان کو پامال کیا جا رہا ہے اورکسی کو اس پر پچھتاوا بھی نہیں ہے ۔
آج جس طرح سے واقعات پیش آئے ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔ اپنی غلطی کو چھپانے اور اس کی ذمہ داری دوسروں پر عائد کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے ۔ ملک کیع وام کو ان سارے واقعات کا نوٹ لینا چاہئے ۔ عوام خود اس بات کا فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اس معاملے میں کون صحیح ہے اور کون غلط ہے کیونکہ ان کے سامنے پوری تفصیل موجود ہے ۔و ہ غیر جانبداری کے ساتھ رائے بناسکتے ہیں اور ان واقعات کے ذمہ داروں کے خلاف عوام کو خود بھی اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ انہیںاپنی غلطیوں کا احساس ہوسکے اور وہ مستقبل میں ایسی حرکتوں کا اعادہ نہ کرسکیں۔