پاسباں مل جائیں گے کعبہ کو اسی صنم خانے سے !

   

تیسری اور آخری قسط

محمد الیاس ندوی بھٹکلی
ان سے ملاقاتیں اپنے مسائل کو لے کر ہوتی ہیں، لیکن ان کے مسئلہ کے خاطر نہیں:۔ کم از کم اپنے ملک کی سطح پر ہی مذکورہ بالا دعوتی پہلوکے تعلق سے ہم غورکریں تو مجموعی طور پر پوری امتِ مسلمہ ہندیہ کو ہم قصوروار پائیں گے، سال بھر میں مختلف مناسبتوں سے اپنے ملک اورصوبہ کے حکمرانوں،وزراء اورممبرانِ پارلیمان وممبرانِ اسمبلی وغیرہم سے ہم یا ہمارے قائدین و علماء ملتے ہیں، اپنے مسائل لے کر ان کے پاس جاتے ہیں، مختلف اداروں کی طرف سے ان کے پاس جاکر اپنے مطالبات پر مشتمل میمورنڈم دیے جاتے ہیں، حتی کہ ہمارے بعض قائدین وعلماء کے ذاتی طور پر بڑے مناصب پرفائز ان حکمرانوں اور وزراء سے ایسے گہرے ذاتی تعلقات بھی ہیں کہ ان کے گھر شادی بیاہ وغیرہ کی تقریبات تک میں ا ن کی آمد ہوتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے ذاتی مسئلہ یعنی آخرت میں ہمیشگی کی آگ سے ان کو بچانے کے خاطر ان کی ہمدردی وخیرخواہی میں کبھی ہم نے ان سے ملاقات کی ہے؟ ہمارے ادارہ کی طرف سے کبھی خالص دعوتی مقصدلے کر کوئی وفدان کے پاس پہنچاہے؟ کبھی بھول کر بھی ہم نے ان کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی ہے؟ کبھی ان سے مل کر اسلام کے فطری پیغام سے براہِ راست آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے، محشرکے میدا ن میں ہمارے یہی حکمراں اورقائدین اگر ہمارے علما ء اور دعاۃ کا گریباں پکڑ کر اللہ کے دربار میں یہ سوال کریں کہ اے اللہ: یہ حضرات دسیوں مرتبہ ہمارے دربار میں اپنے اور اپنی قوم کے ذاتی اورملّی مسائل کو لے کر حاضر ہوتے تھے، متعدد بار ان کی دعوت پر ہم خود ان کے اداروں میں بھی گئے تھے، لیکن اے اللہ! آپ کے ان بندوں نے کبھی بھول کر بھی ایمان واسلام کی حقانیت اور کفر وشرک کی قباحتوں کا ہمارے سامنے ذکر نہیں کیا،ہمارے پاس اس وقت کیا جواب ہوگا اور کس طرح ہم اپنی اس غفلت اور کوتاہی کی تاویل کرسکیں گے؟ یہ سوال ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اس کے جواب کے لیے ہمیں ابھی سے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
اعلیٰ سطحی قیادت تک دعوت پہنچانے کا ایک امکانی طریقہ:۔
ملک کے حکمراں طبقہ اور اعلیٰ سطحی قائدین تک ہمارا دعوت پہنچانے کافریضہ صرف اس حدتک ہے کہ کبھی ہم اپنے جلسوں میں ان کو مدعو کرکے قرآن مجید کے نسخے دیتے ہیں جس کو وہ بڑے احترام کے ساتھ قبول کرتے ہیں اور اسی وقت ان کا سکریٹری یا محافظ اس کو اٹھاکر گاڑی میں رکھ دیتاہے اور وہاں سے وہ اس کواپنے سرکار ی بنگلہ کے کتب خانہ کی زینت بنادیتے ہیں، اسی طرح اسلام کے نام سے ہمارے یا ان کے جلسوں میں ان کی موجودگی میں جو زیادہ سے زیادہ ہماری تقریریں ہوتی ہیں وہ دفاعی انداز کی ہوتی ہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے،دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ،لیکن ان کے تعلق سے ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ جلسہ یا ہمارے ادارہ میں ان کی آمد پرہمارا ہدیہ کیاہواقرآن مجید یا سیرت نبوی کا نسخہ ان کی نظر وں سے گزرا ہے اور اس میں موجودتوحید ورسالت اور آخرت کے عقلی دلائل کو انھوں نے پڑھا ہے یا اس کا مطالعہ انھوں نے کیا ہے، اس کے لیے ایک امکانی ترکیب ذیل میں دی جارہی ہے جس سے کم از کم یقینی طورپر ان کی نظروں سے ان شاء اللہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ وسیرت نبوی میں موجود اسلام کی معقولیت کے فطری دلائل گزرجائیں گے اور غیر جانب دار ہوکر اس کے مطالعہ اوراس پر غور کرنے سے ان کی ہدایت پانے کے ان شاء اللہ امکانات بھی پیدا ہوں گے۔
ملک کے تمام بڑے حکمرانوں بشمول صدر ووزیر اعظم اور کابینی وزراء،صوبائی گورنرس،ممبرانِ پارلیمنٹ وممبرانِ اسمبلی،آئی اے یس اور آئی پی یس افسران وغیرہم کو اپنے ادارہ کی طرف سے اس طرح خطوط لکھے جائیں کہ ہم عالمی سطح پر ایک ضخیم کتاب تین چار جلدوں میں شائع کرنے جارہے ہیں جس کا عنوان ہے.
۱)” حضرت محمدﷺ بحیثیت پیغمبر امن بھارت کے بیسویں صدی کے حکمرانوں کی نظر میں ”ملک کے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز اور نامور وکلاء کو یہ عنوان دیا جائے.
۲) ”حضرت محمدﷺ بحیثیت ایک کامیاب قانون داں بھارت کے نامور قانون دانوں کی نظر میںملک کی تمام یونیورسیٹیوں کے وائس چانسلروں اور کالجزکے پرنسپلوں کے لیے یہ عنوان رکھا جائے.
۳) ”حضرت محمدﷺ بحیثیت کامیاب معلّم ومربیّ ہندوستان کے نامورماہرین ِ تعلیم کی نظر میں،مرسلہ خط میں ان کو لکھاجائے کہ اس سلسلہ میں ہمیں حضرت محمدﷺ کے تعلق سے دو تین صفحات پرمشتمل آپ کے تاثرات مطلوب ہیں.
ظاہر با ت ہے اس خط کا سب سے پہلا نفسیاتی اثر مدعو اور مخاطب پر یہ پڑے گاکہ وہ سوچنے لگے گاکہ مجھے اس ادارہ نے بیسویں صدی کے ملک کے کامیاب حکمرانوں، قانون دانوں اور ماہرین تعلیم میں شامل کرکے میرا سرفخر سے اونچا کردیا ہے،دوم یہ کہ یہ کتاب عالمی زبانوں میں شائع ہوگی اور بین الاقوامی سطح پر اس کا تعارف ہوگا اور اس میں خود میرا آرٹیکل بھی شامل ہوگا اس لیے مجھے بہتر سے بہتر انداز میں حضرت محمدﷺ کے تعلق سے لکھنا اور ان کی خوبیوں کو بیان کرناہے، اس کے لیے وہ سب سے پہلے خود سیرت نبوی کا اطمینان سے مطالعہ کرے گا اور ہمارے لیے یہ بات یقینی ہوجائے گی کہ ان شاء اللہ اس دوران توحید ورسالت کا ابدی پیغام اس کی نظر سے گزرجائے گا اور ہم اپنی دعوتی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں گے،دو چار ماہ کے بعد جب یہ کتاب شائع ہوگی جس کی طباعت پر دو تین لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہیں ہوں گے،اس کے اجراء میں خود ان تمام حضرات کو مدعو کیاجائے گا اور وہ خود اس جلسہ میں شریک ہوکر رحمت عالمﷺ کے تعلق سے اپنے مثبت تاثرات کا اظہار کریں گے،اگر ہم نے ملکی سطح پر ایک ہزار کے قریب ان اعلیٰ سطحی شخصیات تک خود جاکر یا کسی معتبر شخص کے ذریعے اپنا یہ پیغام پہنچادیا اور ان میں دو تین سو لوگوں نے بھی اپنے دو تین صفحہ کے تاثرات ارسال کیے تو یہ دو تین سو افراد لاکھوں نہیں کروڑوں لوگوں کے نمائندے اور ترجمان ہوں گے اور خود ان کے ذریعے اسلام کے تعلق سے شائع ہونے والی اس کتاب کو دوسرے لوگو ں تک پہنچانابھی ہمارے لیے آسان ہوگا،اس امکانی طریقہ دعوت کے تجربات ملکی سطح پر بھی ہوسکتے ہیں یا پھرصوبائی یا ضلعی سطح پر بھی،کسی بھی ادارہ یا جمعیت وتحریک کی طرف سے اس کو بآسانی انجام دیاجاسکتاہے۔
ہم نے اس امکانی دعوتی طریقہ کو ہمارے ملک کے کئی چوٹی کے علما وقائدین کے سامنے رکھا جن کا ملک کی اعلیٰ قیادت سے ذاتی تعارف بھی تھا اورربط وتعلق بھی، وہ اس دعوتی کام کو بآسانی اور بخوبی انجام بھی دے سکتے تھے، ایک نامور ملّی قائد کے پاس دہلی میں خود اسی مقصد کے خاطر دو تین دفعہ خودگیا اور ان کو اپنے شہر اور اداروں میں مدعو کرکے اس دعوتی پہلو کو روبعمل لانے کی شدید ضرورت کے تعلق سے ان کی ذہن سازی بھی کی،لیکن ان کی طرف سے باربار یاددہانی کے باوجود ہنوز دلّی دور است کا معاملہ ہے،ہم نے حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی ؒ کو بھی اپنے ادارہ میں بلاکریہ دعوتی منصوبہ ان کے سامنے رکھاتھا، الحمدللہ انھوں نے اس کو بہت پسند کیا اوردہلی واپس جاکراس پرکام بھی شروع کردیا اور کئی پارلیمانی ممبران کے نام اس طرح کے دعوتی خطوط بھی لکھے لیکن اسی دوران وہ اللہ کو پیارے ہوگئے،سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے ملک کے ایک نامور مسلم وکیل جو ماضی قریب میں حکومت کے ایک بڑے عہدہ پر بھی فائز تھے ان سے بھی ہم نے مسلسل ایک سال تک زبانی وتحریری رابطہ کر کے اور ان کو اپنے یہاں بلاکر اور خود ان کے شہر جاکر بھی ترغیب دی کہ وہ ملکی سطح پرججز اور وکلاء کے درمیان اس کا دعوتی کام تجربہ کریں،لیکن وہ بھی وعدہ پر وعدہ کے باوجود اب تک اس کام کو شروع نہیں کرسکے ہیں،لیکن میں اب بھی اللہ تعالی کی ذات سے ناامید نہیں ہوں اورروزانہ اس کے لیے دعاکے ساتھ کوشش بھی کررہاہوں کہ ملکی یا ریاستی سطح پر مختلف سیاسی، قانونی،تعلیمی اور تجارتی میدانوں میں کام کرنے والے اعلیٰ سطح کے کچھ افراد میسر آجائیں تو ان کے توسط سے بآسانی اس امکانی دعوتی تجربہ کو آگے بڑھایاجاسکے۔
ہمیں رحمت عالم ﷺ کی ناامیدی ومایوسی اور اتمام حجت کے بعد آخری مرحلہ میں اپنے دشمنوں کے حق میں کی گئی بدعا *_اللہم دمّراعداء الدین اعداء الاسلام والمسلمین_* ” اے اللہ! تو اسلام اور مسلمان دشمنوں کو نیست ونابود کر”یادرہتی ہے لیکن آسمان سے فرشتوں کے ذریعہ دشمنوں کی ہلاکت کی پیش کش باوجود _اللہم اھد قومی فانّھم لایعلمون_ والی مشفقانہ کیفیت یاد نہیں رہتی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے،بے شک وہ جانتی نہیں پوری اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ جب بھی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبہ سے اخلاصِ نیت کے ساتھ سخت سے سخت انسان کے سامنے بھی معقول بات رکھی گئی ہے تو بالعموم اس کا اثر ضرور ہوا ہے،بالعموم ہم کہتے ہیں کہ فلاں حکمراں تو ظالم ہے،سفاک ہے،اس کے پاس جانے کاکیافائدہ؟ فرعون سے بڑھ کر شاید ہی انسانی تاریخ میں کوئی ظالم وجابرحکمراں تھا، اس نے ہزاروں معصوم بچوں کو ذبح کرکے سفاکیت کی ناقابل یقین تاریخ رقم کی تھی، خود کو أناربّکم الاعلیٰ کہتا تھا، ایسے سخت ترین بادشاہ کے پاس بھی وقت کے نبی کو جانے کا حکم ہوا اور یہ بات علیم وخبیر رب العالمین کو معلوم ہونے کے باوجود کہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئے گا اور اس کے مقدر میں ہدایت نہیں ہے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کو حکم دیاگیا کہ آپ دونوں اس سرکش فرعون سے مل کر نرمی سے بات کریں اور اس کو سمجھائیں،شاید کہ وہ مان جائے،اسی طرح آج ہم بھی اپنا دعوتی فریضہ سمجھ کر اگرہمارے ملک کے حکمرانوں اور اعلیٰ سطحی قیادت سے مل کر ان کی ہمدردی کے جذبہ سے ان کو ہمیشہ کی ہلاکت سے بچانے کے لیے حکمت کے ساتھ دعوت کا پیغام دیں گے اور اسلام کی حقانیت اور توحید ورسالت کی معقولیت کو سمجھانے کی کوشش کریں گے تو تین میں سے ایک نتیجہ ہر حال میں ان شاء اللہ سامنے آنے والا ہے،اول یاتووہ فضل خداوندی سے ان شاء اللہ ہدایت پائیں گے، دوم اگر حلقہ بگوشِ اسلام نہ بھی ہوئے تو کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے نفرت کے جذبات میں کمی آئے گی اور اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا، سوم اگریہ دونوں مذکورہ نتائج مرتب نہیں بھی ہوئے تو اس اہم فریضہ دعوت کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کے خلاف ان کی ظلم وزیادتی پر ان کی اس دنیا ہی میں پکڑ کے خداوندی فیصلے سامنے آئیں گے اور مسلمانوں کے حق میں اللہ کی مدد کا ظہور ہوگا،ہمارے ملک کے بگڑتے ماحول،سنگین صورتِ حال اورتشویشناک حالات کے باوجود ہمیں اللہ پاک کی ذات سے امید قوی ہے کہ ان شاء اللہ کچھ فیصدپہلانتیجہ بھی برآمد ہوگا اور ہم خود زبان حال سے کہیں گے”پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے”،پھر دنیا اسلام کا یہ معجزہ بھی دیکھے گی کہ کل کے ہمارے سب سے زیادہ اسلام دشمن سمجھے جانے والے یہ حکمراں اور اعلیٰ سطحی قائدین اسلام کے نہ صرف حامی ووکیل بلکہ داعی ومبلغ بن کر سامنے آئیں گے۔ وَماَذٰلِکَ عَلٰی اللّہِ بِعَزِیْزٍظلمتِ شب میں نظر آئی امید کی کرن:۔
ہمارے ملک کے حالات مسلمانوں کے لیے اس وقت جس قدرپریشان کن، سنگین اور تشویشناک ہوں لیکن اس گئی گزری حالت میں بھی دعوتی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے بے پناہ مواقع ہیں، پانی ابھی سرسے اونچا نہیں ہوا ہے، پوری اسلامی تاریخ میں سب سے کامیاب دعوت کا کام ناموافق حالات ہی میں ہوا ہے،سلطنت بغداد میں تاتاریوں کے حملے اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کی شہادت کے بعد جب پوری دنیا اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ناامیدہوگئی تھی اسی صنم خانہ سے کعبہ کو پاسبان ملے تھے اور ظالم ترین وحشی سمجھے جانے والے یہی تاتاری حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے، آپ کو یہ جان کر مسرت آمیز حیرت ہوگی کہ آج چیچینیا، افغانستان،ترکمانستان اور وسط ایشیا کے اکثر ملکوں میں موجود مسلم مجاہدین اسی تاتاری نسل سے تعلق رکھتے ہیں جوکسی زمانہ میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن سمجھے جاتے تھے،اسی طرح ہمیں معلوم ہوناچاہیے کہ1857ء؁ کے ناگفتہ بہ حالات کے بعد ہی برِصغیر میں سب سے بڑے اسلامی قلعے دینی مدارس کی شکل میں وجود میں آئے تھے،تاریخ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ1947ء؁ کے بعد رونماہونے والے بھیانک فسادات کے بعد ہی مسلمان سنبھلے تھے اور اپنی دعوتی کوتاہیوں سے سبق لیتے ہوئے نئے عزم اور ایمانی شناخت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف از سرِ نو رواں دواں ہوئے تھے، قرآن مجید کے مطالعہ سے بھی صاف معلوم ہوتاہے کہ اہلِ ایمان کے حق میں نصرتِ خداوندی کے فیصلے ناگفتہ بہ حالات اور ناامیدی کے گھٹاٹوپ اندھیرے ہی میں آتے ہیں،لیکن دوسری طرف اسلام کی دعوتی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ اہل ایمان کے اجتماعی گناہوں اور ان کے کرتوتوں کی بنا پر ہی ا ن پر ظالم حکمراں مسلط کیے جاتے ہیں اور ان کو آزمائشوں میں ڈالاجاتاہے، درحقیقت اس وقت کے یہ تشویشناک حالات ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے ہی ہیں،یہ عادت اللہ ہے کہ امت جب اجتماعی طور پرتوبہ کرتی ہے تو حالات یکسر بدل جاتے ہیں اور فیصلے ان کے حق میں ہوتے ہیں، اگر ہم نے ماضی کی اپنی دعوتی کوتاہیوں سے سبق لیتے ہوئے آج بھی بحیثیت امت دعوت خارجی محاذ پر اس اہم پہلو یعنی اعلیٰ سطحی قیادت تک دین کے پیغام کو پہنچانے میں کامیابی حاصل کی اوراسی کے ساتھ اپنے وطنی بھائیوں اور عوام وخواص تک بھی اللہ کا پیغام پہنچادیااوردوسری طرف داخلی محاذ پراپنی بداعمالیوں سے سبق لیتے ہوئے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ کی ذات سے امیدقوی ہے کہ چند ہی سالوں میں ہمارے ملک کا نقشہ ہی بدل جائے گااور آج کے ہمارے حریف وفریق سمجھے جانے والے ہمارے یہ برادرانِ وطن ہم سے بڑھ کر اسلام کی وکالت اور ترجمانی میں پیش پیش نظر آئیں گے،دراصل سیاہ بادلوں کی آمد کے بعد ہی بارانِ رحمت کانزول ہوتا ہے،گھٹاٹوپ اندھیرے کے بعد ہی سحر ہوتی ہے، عُسر کے بعد ہی یُسر آتاہے، آزمائشوں کے بعدہی فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں،ابتلاء کی آگ میں تپائے جانے کے بعد ہی کندن بن کر اہل ایمان منظر پر آکراپنی شناخت کراتے ہیں، ناامیدی کے بعد ہی امید کی کرن سامنے آتی ہے،اسی طرح ان تشویشناک اورکربناک حالات کے درمیان ہی سے انشاء اللہ اس ملک میں مسلمانوں کی سرخروئی اور فتح مندی اور کامیابی وکامرانی کی نوید پوری دنیائے انسانیت کے کانوں سے ٹکرانے والی ہے۔
شب گریزاں ہوگی آخرجلوہء خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے