غزہ سٹی۔ 23 مئی (ایجنسیز) غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری، محاصرے اور تباہ کن حملوں نے زندگی کی بنیادی ترین سہولت ’پانی‘ کو بھی ایک نایاب نعمت بنا دیا ہے۔ دھوپ میں جھلستے فلسطینی پناہ گزین گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہو کر پانی کی ایک بوند کے منتظر نظر آتے ہیں۔ اس دوران معصوم بچے پیاس سے تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی حملوں نے غزہ کے آبی نظام کو جڑ سے تباہ کر دیا۔ پانی کی لائنیں، کنویں، فلٹریشن پلانٹس سب ملبے میں دفن ہو چکے ہیں۔ پہلے فی کس پانی کا استعمال روزانہ 84.6 لیٹر تھا، اب صرف 3 تا 5 لیٹر رہ گیا ہے، جو عالمی ادارہ صحت کے کم از کم ہنگامی معیار 20 لیٹر سے بہت کم ہے۔غزہ کے کیمپوں میں ہیضہ، گردے فیل ہونا، پولیو، جگر کی بیماریاں اور بچوں میں پیچش جیسے امراض عام ہو چکے ہیں۔ وزارتِ صحت کے ڈاکٹر ایمن رملوی کے مطابق، پانی اور نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، جو براہ راست صحت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔فلسطینی واٹر اتھارٹی کے مطابق 85 فیصد واٹر و سیوریج سسٹم مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور پانی کے حصول میں 70 سے 80 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ آلودہ پانی نہ صرف پینے بلکہ زراعت اور صفائی کیلئے بھی ناقابلِ استعمال ہے۔یونیسیف نے خبردار کیا ہیکہ 90 فیصد فلسطینی خاندان صاف پانی سے محروم ہیں۔ ترجمان جوناتھن کریکس کا کہنا ہے کہ بچے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں، جبکہ نومولود بچوں کو دھونا بھی ممکن نہیں رہا۔
خان یونس کے علاقے المواصی میں صفائی کے ناقص حالات، کوڑے کرکٹ، اور آوارہ جانوروں کی بہتات نے جلدی بیماریوں کو عام کر دیا ہے۔ نکاسی کا نظام مفلوج ہو چکا ہے اور گندہ پانی سیدھا سمندر میں گر رہا ہے، جس سے ماحول بھی آلودہ ہو چکا ہے۔2 مارچ سے اسرائیل نے 24 لاکھ فلسطینیوں پر قحط مسلط کر رکھا ہے۔ ہزاروں امدادی ٹرک سرحد پر روک دیے گئے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اس وحشیانہ نسل کشی میں 1.75 لاکھ سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ یہ ایک انسانی بحران نہیں بلکہ اجتماعی سزا ہے۔ بدقسمتی سے، امریکہ اور مغربی طاقتیں اس بربریت کی حمایت کر رہی ہیں، جبکہ مسلم دنیا کی خاموشی، منافقت اور مغرب پرستی نے فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے۔
غزہ میں جاری انسانی بحران اور تباہ کن بمباری کے درمیان یورومیڈ مانیٹر برائے انسانی حقوق نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی جبری بے دخلی، اجتماعی قحط اور قتل عام کے ذریعے غزہ کو خالی کرانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ پالیسی کسی فوجی ضرورت کا تقاضا نہیں بلکہ ایک دانستہ نسل کشی کی مہم ہے جس کا مقصد فلسطینی شناخت کو مٹانا ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی یہ کارروائیاں اب 2024 میں اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہیں۔ اب تک اسرائیل نے کم از کم 35 جبری انخلا کے احکامات جاری کیے ہیں، جن سے دو ملین سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ شمالی غزہ کے کئی علاقوں، جیسے جبالیا کیمپ، شیخ زاید، الزھور اور بیت لاہیا، کے مکینوں کو جنوب کی جانب کوچ پر مجبور کیا جا رہا ہے۔چند دن قبل جنوبی غزہ کے خانیونس کے ہزاروں فلسطینیوں کو بھی المواصی کی جانب دھکیلا گیا، جو بظاہر “محفوظ علاقے’’ کہلاتے ہیں، لیکن درحقیقت اسرائیلی بمباری سے محفوظ نہیں ہیں۔ کل صبح المواصی میں ایک فلسطینی خاندان بشمول اشرف خریش، ان کی اہلیہ اور دو بچوں کو خیمے میں نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔یورومیڈ مانیٹر نے اس سازش کی تفصیلات واضح کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل امداد کی تقسیم اور قحط کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔ غزہ کی 2.3 ملین آبادی شدید غذائی قلت، بمباری، اور پناہ کی کمی کا شکار ہے۔ادارے نے کہا کہ یہ تمام اقدامات صریحاً نسل کشی کے مترادف ہیں اور اسرائیل کی نوآبادیاتی پالیسی کا تسلسل ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے اب وطن میں رہنا “اختیار’’ نہیں بلکہ “زندگی کی قیمت’’ بنا دیا گیا ہے۔یورومیڈ مانیٹر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری مداخلت کرے، اسرائیل پر اقتصادی، عسکری اور سفارتی پابندیاں عائد کرے اور اس کے رہنماؤں کو بین الاقوامی عدالت میں انصاف کے کٹہرے میں لائے۔