سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیڈریل رویو بورڈ کی جانب سے پاکستان کی جیلوں میں موجود پانچ ملزمان سے متعلق ایک اشتہار شائع کیا گیا ہے۔
وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ قیدی غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے پر عدالتوں سے سزا کی مدت گزار چکے ہیں اور ‘یہ افراد ذہنی طور پر بیمار ہیں اور اپنے نام اور شہر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ یہ قانونی طور پر اپنی سزا پوری کر چکے ہیں لیکن اب تک ان کے خاندانوں کی طرف سے کوئی سامنے نہیں آیا ہے۔’
ان پانچ قیدیوں میں سے تین کا تعلق انڈیا کے شہروں کندنیاں، الٰہ آباد اور دہلی سے ہے اور ایک کا تعلق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر جبکہ ایک کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔
الٰہ آباد سے تعلق رکھنے والی خاتون کا نام گلو جان ہے جبکہ مدھیا پردیش سے تعلق رکھنے والے سیلوراف سلیم ولد برہان، شرما ولد پونی شرما اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے شہری کا نام حامد ولد مرتاش ہے۔
جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے فرد کے نام کی جگہ صرف گونگا اور بہرہ لکھا ہوا ہے جن کی سزا کی مدت 2002 میں پوری ہوچکی تھی۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان قیدیوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج ناصر اسلم زاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے کیسز میں مسئلہ شناخت کا ہوتا ہے۔
‘عدالتوں کی طرف سے کوشش ہوتی ہے کہ شناخت معلوم کروائی جائے جس کی وجہ سے اخبارات اور ٹیلیوژن میں اشتہارات چلوائے جاتے ہیں تاکہ دونوں طرف کی حکومتوں میں سے جس کے پاس بھی معلومات ہوں وہ سامنے آجائیں۔’
AFP حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے 537 انڈین قیدیوں کی فہرست اسلام آباد میں موجود انڈین ہائی کمیشن کو دی ہے
انھوں نے کہا کہ اس کے لیے انڈین حکومت کے ترجمان، وزارتِ خارجہ اور محکمہ داخلہ سے بھی معلومات شئیر کرنے بعد قیدیوں کو ٹرین کے ذریعے واہگہ سے انڈیا بھیج دیے جائیں گے۔
اسلم زاہد کے کہا کہ ‘ایسی صورت میں ہینڈ اوور کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ جب تک انڈیا کی طرف سے موجودہ تفصیلات کی تصدیق نہ ہوجائے تب تک کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔’
اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے 537 انڈین قیدیوں کی فہرست اسلام آباد میں موجود انڈین ہائی کمیشن کو دی ہے۔ ان میں 483 ماہی گیر جبکہ باقی 54 عام شہری ہیں۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان کونسلر ایکسس معاہدے کی پیروی کرتا ہے جو 21 مئی 2008 کو طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ جیلوں میں قید قیدیوں کی فہرست ہر سال کے پہلے دن اور جولائی کی پہلی تاریخ کو شئیر کریں گے۔